نعمت کی قدر 152

نعمت کی قدر

نعمت کی قدر

ماہ نور نثار احمد(شکرگڑھ)
بڑے احتیاط سے چلتے ہوئے وہ سمندر کے کنارے تک پہنچ گئی – یہ راستہ تو اسے زبانی یاد تھا – اور وہ دعوےکیا کرتی تھی کہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی یہاں آ سکتی ہے – لکڑی کے بینچ پر بیٹھے سمندر سے آنے والی ٹھندی ہوا اسے پر سکون کر گئی- بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ اردگرد سے آنے والی آوازوں پر غور کرنے لگی-

سمندر کی لہروں کا سفر کنارے پر زرا سا شور پیدا کرتے ہوئے مکمل ہو رہا تھا – کہیں سے بچوں کی آوازیں آ رہی تھی اور کہیں سے پرندوں کا شور- اس شور میں اچانک ایک آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی – مردانہ آواز میں کوئی موبائل پر زندگی کی بے سکونی کے بارے میں اپنی بھڑاس نکال رہا تھا- نور نے افسوس سے سرد آہ بھری اور آسمان کی جانب رخ کرتے ہوئے خود سے کہا کہ اے سکون کے متلاشی جب تک تم شکر کی عادت کو نہیں اپناتے اصلی سکون نہیں پا سکتے -رب کی نعمتوں کا شکر, اس کے ساتھ عشق ,اور اس کا ذکر کرنے سے ہی ملے گا سکون- جب دل الله کے خوف سے لرزے گا اور کئے ہوئے گناہوں پر پشمانی ہو گی پھرملے گا سکون –
ہم اپنی زندگی میں ہمیشہ کمی کو دیکھتے ہیں اور ناشکرے ہو جاتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ الله نے ہم جیسوں کو کتنی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے- جس دن انسان اپنی سوچ سےناشکری کا کیڑا نکال پھینکے گا اس دن وہ اپنی ذات کی کھوئی ہوئی توقیرحاصل کر لے گا اور سکون بھی – سمندر کی ہوا مزید ٹھنڈی ہو گی – سورج بھی قدرے نیچے اتر گیا تھا- اس وقت آسمان کے بدلتے رنگ اسے یاد تھے-انسان ایک نعمت کی قدر اس وقت کرتا ہے جب وہ اسے کھو دے –

اس خیال پر اسے اپنی آنکھیں شدت سے یاد آئی تھیں – لیکن اس کی زباں پر کوئی شکوہ نہیں تھا بلکہ دعا تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ جس عظیم رب نے اس سے اپنی دی ہوئی نعمت واپس لی ہے تو وہ اسے دوبارہ دینے پر بھی قادر ہے- اسے پورا یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنی بصارت کو پا لے گی اور پھر ڈوبتے سورج, سمندر کی لہروں, چہکتے پرندوں, گیلی ریت پر گھر بناتے بچوں اور آسمان کے بدلتے خوبصورت رنگوں کو دیکھ پائے گی- نور نے, مسکراتے ہوئے, بھائی کے ساتھ اپنے گھر کا رخ کیا جو اسے لے جانے کے لئے وہاں آ پہنچا تھا-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں