عقابی روح کے فلسفے کو اجاگر کرتی نوجوان شاعرہ تحریم افضل کی باتیں 224

عقابی روح کے فلسفے کو اجاگر کرتی نوجوان شاعرہ تحریم افضل کی باتیں۔

عقابی روح کے فلسفے کو اجاگر کرتی نوجوان شاعرہ تحریم افضل کی باتیں۔

تحریر : صبا کمال
روح کی تشنگی کو الفاظ کے پیرہن سے یوں سجا لیتی ہوں ،کہ جہاں میری روح کی پیاس شدت آرزو میں ڈھلتی ہے وہیں سے جینے کی تمنا جنم لیتی ہے۔۔۔میں اپنے خیالوں سے ماحول سجا لیتی ہوں۔۔۔جب وقت آتا ہے تو، آنسو بھی بہا لیتی ہوں۔۔۔۔میری دنیا میں خواہشیں بیشمار ہیں صاحب لیکن پھر بھی ایک تشنگی باقی ہے۔۔۔میں ہوں تحریم افضل ۔۔ابھی نوجوانی کا ذکر کیا صبا صاحبہ نے تو بتائے دیتی ہوں کہ بس عقابی روح کے فلسفے نے مجھے یوں بیدار کیا کہ میں نے معمولات زندگی کو گہرائی سے مانپنا شروع کر دیا ۔۔۔۔پھر اتنا گہرائی میں گئی

کے زندگی کے راز مجھ پر عیاں ہو چلے اور ،،،اس بھاگتی دوڑتی مشکل زندگی نے بالآخر مجھے ایک عام لڑکی سے شاعرہ بنا دیا۔۔۔۔۔پڑھنے لکھنے کا تو بچپن سے ہی شوق رہا ہے مجھے اور کچھ نہ کچھ لکھتی بھی رہتی تھی ،،پھر جب زندگی کا فلسفہ سمجھنا شروع کیا تو اپنے من کے خیالات کو اشعار کے روپ میں ڈھال دیا۔۔۔آپ مانیں گے نہیں لیکن میں گولڈ میڈلسٹ ہوں،،،،اور وہ بھی میتھ میٹکس میں، بھلا زندگی کے اتار چڑھاو میں دو جمع دو چار کے فلسفے کا کیا کام۔۔۔یہاں تو احساسات کے بٹوارے ہوتے ہیں اور انہی بٹواروں نے مجھے شاعرہ بنا دیا ۔
میں نے شروعات میں جتنا بھی لکھا وہ سب تو آن لائین ہیں اور بیرون ملک ہی اس کے نسخے دستیاب ہیں تاہم پھر سوچا ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے اپنے وطن کے نوجوانوں میں امید کے دئیے روشن کرنے چاہئیے جو نا امیدی کے گھنگھور سمندر میں ڈوب رہے ہیں انہیں اڑنے کے لئیے کھلے آسمان سے جا ملاناہے ،

من کا سکون کسی کی ذاتی میراث نہیں اسے اپنانے کے لئیے میں نے انسانی رویوں کو پرکھا،،، نئے نئے رنگوں سے دمکتے چہروں کو سمجھا تو جانا کہ ہر ایک جھلملاتے چہرے کے پیچھے تکلیفوں، دکھوںاور انجانے خوف کا نا ختم ہونے والا گہرا تاریک اندھیرا پنہاں ہے۔۔۔میرے دل سے آواز آئی کے اب میری روح کیا چاہتی ہے ،کیا

میں اس بیقراری کو الفاظ کا جامہ پہنا سکتی ہوں تو بیٹھی ایک دن اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر۔۔۔۔اورنظریں دوڑانے لگی اپنے ذہن میں یہاں وہاں بھاگتے دوڑتے شرارتی لفظوں ک پر جو نجانیء کب سے میرے من میں دبی معصوم خواہشوں سے کھیل رہے تھے۔۔۔تب جا کر میں نے ایک انسان کے اندر کی تخلیقات کو باہر نکالا اور شاعری میں ڈھال دیا۔۔۔میری کتاب انگریزی میں ہے جس کا عنوان ہے مائی سول کریونگ ۔، یعنی میری روح کی تشنگی۔۔

۔۔میری روح کے سکون کا بڑا سبب میری شاعری کے اندر چھپے وہ پر امید جذبے ہیں جو کسی سائبان کی طرح اس کتاب کے قاری پر سایہ کئیے رکھتے ہیں۔ جذبہ ایمانی اور انسانیت کے احساس نے مجھے لکھنے پر مجبور کیاہے یوں تو میں نے بہت سی نظمیں ، مختصر تحریریں ، مضامین اور اقتباسات لکھے تاہم گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ، میں نے اپنے کام کو جمع کرنے اور اسے کتاب کی شکل میں شائع کرنے کا سوچا۔ اس خیال نے مجھے بہترین ناشروں کی تلاش پر تھکا کہ رکھ دیا بالآخر مہینوں کی تلاش کے بعد ، مجھے “داستان اشاعت” کے ذریعے پلیٹ فارم ملا ۔2020 میں ، میں نے اپنا کام ان کے پاس پیش کیا اور بالآخر جنوری 2021 میں میری کتاب شائع ہوئی

۔۔۔ اس میں تین حصے شامل ہیں۔ پہلا حصہ میری نظموں کے بارے میں ہے ، دوسرے حصے میں مختصر تحریریں شامل ہیں جبکہ آخری حصے میں حوالہ جات شامل ہیں۔ میرے اشعار ان دلوں کو چھوئیں گے جنہوں نے زوال کا سامنا کیا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک مشکل دور سے گذرتا ہے ، لیکن صرف چند ہی افراد خود سے چھڑی اس جنگ میں جیت پاتے ہیں۔۔۔۔ یہ کتاب ان خاص ذہنوں کے لئیے ہے جنھیں امید کی تلاش رہتی ہے جبکہ امید تو ان کے اپنے من میں روشن ہے بس وہ دیکھ نہیں پاتے۔۔۔۔یوں کچھ کو حوصلہ ملے گا ، اور کچھ کو جدوجہد جاری رکھنے کی ایک وجہ ملے گی

۔کتاب ان لمحوں کے گرد گھوم رہی ہے جو ہمیں ہار ماننے کا احساس دلاتے ہیں ،، وہ نقصانات جو ہماری زندگیوں میں بے سکونی اور مایوسیوں کو جنم دیتے ہیں ، ان سے لڑنے کا بہترین سبق میری کتاب ہے. جو ہمیں بنا کسی تفریق ،و تعصب کے سورج کی طرح چمکنے کا حوصلہ دے رہی ہے۔۔۔ کیونکہ میرا ماننا ہے ہم معصوم جانوں پر محبت نچھاور کرتے ہیں تو وہی محبت کائنات ہمیں کئی گنا بڑھا کر واپس کرتی ہے۔۔۔۔شاید اسے ہی مکافات عمل بھی کہتے ہیں۔۔۔۔
میں اپنی دوسری کتاب پر بھی کام کر رہی ہوں ، جس کا عنوان ہے “دا ٹیلز ان ٹولڈ۔ یہ ان کہانیوں کی تالیف ہوگی جو لوگ عام طور پر نہیں کہ پاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارے معاشرے کے دھتکارے ہوئے طبقے خواجہ سرا ووں کی زندگیوں کے تلخ حقائق پر بھی قلم کاری کا ارادہ رکھتی ہوں۔۔میری چند منتخب تحریروں کے اقتباسات میرے قارئین کی نظر ہیں۔۔۔”یہ میرے پروردگار کی نعمتوں میں سے ایک تھا کہ جب میں گہری کھائی میں گر گیا

تو مجھے اپنے پاس کھڑا کوئی نہیں ملا … سوائے خود رب کے”۔”یہ عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن میں نے زندگی کو ایک بیماری کے طور پر پایا ہے جو عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے خون میں دوڑتی ہے، خوش قسمتی سے ، یہ ابدی نہیں ہے اور موت ہی اس کا واحد علاج ہے “2. “الگ سے کھڑے ہونے کے بارے میں کیا خیال ہے؟قطب ستارہ ہونے کے بارے میں کیا خیال ہے؟لاکھوںکی بھیڑ میں اپنی راہ درست سمت لے جانے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔۔

“3. “ڈارلنگ!یہ میری دنیا ہے یہاں فرشتے آپ کے دل کو چھرا ماریں گے ،اور شیطان آپ کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ “”میری روح کی خواہشات” سے”. “پیارے اللہ! میں نے بہت ساری قیمتی چیزیں بہت بار ضائع کیں اور آپ نے مجھے ہمیشہ واپسی کا راستہ دکھایا،میں صرف مستقبل میں متحرک رہنے اور اپنے خوابوں اور اہداف کو حاصل کرنے کے لئیے پر امید ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں