ملک کو ٹیکس چوری سے کیسے بچایا جائے
تحریر:محمود احمد شیخ
اس ملک کی ترقی کاپہیہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتا ہے جن میں ایک طبقہ وہ ہے جو کہ دن بھر محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے اور ایک طبقہ چھوٹے تاجروں کا ہے جو کہ مختلف قسم کے کاروبار کرتا ہے اور بمشکل اپنی سفید پوشی برقراررکھنے میں پھر بھی ناکام ہو جاتا ہے اور یہ طبقہ بد قسمتی سے ٹیکس چور بھی کہلاتا ہے
لیکن کبھی کسی نے اس طبقہ کے ٹیکس چوری کرنے کی کوئی وجہ جاننے کی کوشش تک نہ کی حالانکہ قانون بنانے والے ادارے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں فی الحال ہے لمبی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ جو شخص انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہے اس کو سالانا انکم کی چھوٹ صرف اور صرف مبلغ چار لاکھ روپے سالانہ ہے
جس کا مطلب ہر ماہ کی چھوٹ صرف33333 ہزار روپےبنتی ہے ایف بی آر کے قانون بنانے والے بڑے بڑے تجربہ کار اور قابل لوگ ہمارے ملک میں موجود ہیں جو کہ پورے ملک کا بجٹ بھی بناتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے اور کرواتے ہیں ان سے ہم تاجران امید کرتے ہیں کہ وہ تاجران کی انکم مبلغ چار لاکھ روپے ہے جو کہ انکم ٹیکس قوانین میں چھوٹ ہے ہے
اس کا کوئی بجٹ ترتیب دے دیں جس میں کرائے کا گھر کرائے کی دکان گھر اور دکان کے یوٹیلیٹی بلز بجلی گیس پانی وغیرہ بچوں کی تعلیم وپرورش کھانا پینا اور ہماری اور بیماری وغیرہ شامل ہو پھر اسی ٹیکس کی چھوٹ کو بڑھا کر اس مہنگائی کے دور میں سالانہ چھوٹ مبلغ پندرہ لاکھ روپے کر دی جائے تاکہ کوئی ٹیکس چوری نہ کرے اور اپنی ضروریات کو آسانی سے پورا کرکے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکے اور اس کے بعد جو انکم ہو اس پر خوشی خوشی ٹیکس کی ادائیگی کر سکے اور اس ملک کی ترقی میں حصہ لے سکے۔