یہ ہوتی ہے حق گوئی
نقاش نائطی
۔ +966504960485
مہاتما گاندھی جن کی کوششیں بھی ایک سبب بنی ھند کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں۔ انگریزوں کے بھارت پر رہتے جب بھارت کو جزوی آزادی دی گئی تھی اور بھارتیہ سیاست دانوں کی جزوی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی تو اس پہلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے دیش کے پرم پوجیہ مہاتما گاندھی نے کس قدر حقیقت پر مبنی بات کہی تھی کہ انکے بھگوان کہے جانے والے رام اور کرشن تو تخیلی رام کتھا کے کردار تھے ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس لئے ان کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن جہاں تک میں نے تاریخ پڑھی ہے
بارہ تیرہ سو سال پہلے جب عرب میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی اور وہ اسلامی حکومت بڑھتے بڑھتے تقریبا نصف عالم پر حکومت کرنے لائق بنی تھی اس وقت مسلمانوں کے پہلے اور دوسرے سربراہ مملکت ابوبکر و عمر رض دونوں آدھے عالم کے حکمران رہتے ہوئے بھی، فقیروں والی زندگی بسر کیا کرتے تھے اپنی رعایا کو ہمیشہ خوشحال رکھنے کی فکر کرتے پائے گئے تھے۔ انہوں نے صرف مسلمانوں پر حکومت نہیں کی بلکہ اپنے حسن اخلاق سے انسانیت کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ بھارت پرقائم یہ پہلی حکومت، مسلم حکمراں ابوبکر و عمر رض کی زندگیوں کو اپنا نصب العین بنائیں اور ان کے جیسا بھارت پر حکمرانی کی کوشش کریں
مہاتماگاندھی کے یہ اقوال اس وقت کے مشہور اردو روزنامہ ھریجن 27 جولائی 1937 میں طبع ہوئے تھے۔ گاندھی جی نےاس وقت کی پہلی کارگزار بھارتیہ حکومت کو جو عموما ھندو تھے مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے۔ کہنے کو تو یہ ہم مسلمانوں کے لئے بڑے تفخر کی بات تھی اور ہے۔ لیکن کیا اپنی اپنی استطاعت کے اعتبار سے اپنے اپنے حلقہ اثر پر حکومت کرنے والے ہم مسلم حکمران بھی کیا مسلمانوں کے پہلے اور دوسرے خلیفہ المسلمین بوبکر و عمر رض کی طرح اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک کرتے پائے جاتے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنے زیر اقتدار ملی املاک کی حفاظت کرتے ہوئے،
خود فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرتے پائے جاتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا اسلام مذہب آج کے ماحول میں لائق عمل نہیں رہا؟ کیا اسلامی احکامات صرف کتابوں میں پڑھ کر تعریف کرنے کے لئے ہی رہ گئے ہیں؟ بھارت و پاکستان کے سیاستدان کو تو چھوڑیئے، لاکھوں کی تعداد میں پائے جانے والے ہمارے دینی اداروں اور مساجد کی کمیٹیوں کے ہم ذمہ دار دیندار حضرات یا ہزاروں کی تعداد والے درگا کمیٹیوں کے ہم دیندار و علماء حضرات بھی اپنے ماتحت رہے اوقاف جائیداد کے سلسلے میں کیا امانت دار ہیں؟
حضرت عمر رض بھی تو ماقبل اسلام ایک اجڈ بدو عربوں کی زندگی گزارے والے تھے کچھ سالوں کی حضور پرنور محمد مصطفی صلی اللہ کی عملی زندگی میں انہوں نے اپنے میں کیا تبدیلی پائی تھی کہ خلیفہ المسلمین بننے کے بعد، اپنی پوری زندگی انہوں نے عدل و انصاف کرتے، خلق خدا کی خدمت کرتے، رب دو جہاں کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگائی تھی۔ عوام کا درد دکھ جاننے کے لئے وہ سر شام مدینہ کی گلیوں میں بھیس بدل کر گھوما کرتے تھے
تاکہ عام رعایا کی تکالیف کے بارے میں انہیں آگہی و ادراک ہو۔ ایک شام وہ ایسے ہی بھیس بدلے مدینے کی گلیوں میں گھوم رہے تھے ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیں آئیں انہوں نے جھانک کر اندر دیکھا ایک بڑھیا چولہے پر برتن چڑھائے پاس میں بیٹھی ہوئی تھی اور بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ۔آپ نے اس بڑھیا سے پوچھا۔ بھوک سے بچے رو رہے ہیں تو انہیں کھانا کیوں نہیں دیتیں۔ اس بڑھیا نے کہا “بچے دو دن کے بھوکے ہیں
گھر میں اناج نہیں ہے پھر بھی میں نے ہنڈیا میں صرف پانی ڈالے چولہے پر چڑھایا ہے تاکہ بچے سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے۔ بچوں کو کیا کھلاؤں سمجھ میں نہیں آرہاہے۔اللہ ہی خلیفہ المسلمین عمررض پر رحم کرے، اگر انہیں پتہ چلے تو کچھ تو بیت المال سے چاول گیہوں بھجوا دیتے”۔ یہ سن کر حضرت عمر واپس پلٹے بیت المال سے چاول دال آٹا ایک گھٹری میں باندھا اور اپنے کندھے پر لادے اس بڑھیا کے گھر کی طرف چل دیئے۔ راستے میں ان کے غلام سے آمنا سامنا ہوا۔ حضرت کے کندھے پر بوجھ دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور کہا حضرت یہ بوجھ ہمیں دے دیجئے
ہم پہنچادیتے ہیں جہاں پر پہنچانا ہو۔ یہ سن کر حضرت عمر رض روہانسی آواز میں بولے “یہ دنیوی بوجھ تو، تو اٹھا لیگا لیکن کل قیامت کے دن میرے بارگران کو کوئی اٹھانے نہیں آئیگا” یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے اور اس بڑھیا کے گھر وہ اناج پہنچا دیا تاکہ اس کے بچوں کو آج کی رات بھی بھوکے پیٹ سونا نہ پڑے۔اور دوسرے دن بیت المال سے سن کے کئے راشن پانی جاری کروادیا۔ یہ ہوتے تھے ان حضرات کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس۔
اور آج کے ہم مساجد و مدارس و درگاہوں کے ٹرسٹی صاحبان۔ اوقاف ٹرسٹ کی کروڑوں کی جائیداد پر اپنے تصرف کو ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ہزاروں بےکسوں مفلسوں کو اس اوقافی جائیداد سے محروم کر خود ٹھاٹھ کررہے ہوتے ہیں، یہی نہیں عالم کے انیک ملکوں کے شاہ و شیوخ ہیں وہ کتنا اپنی رعایا کا خیال رکھتے اور کتنا اپنے عیش وعشرت پر اڑاتے ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے
اس سمت ہم مسلمانوں کو سوچنا اور تدبر کرنا چاہئیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی وہ بات بھی تو ہمیں یاد رہے کہ آپﷺ نے کہا تھا خلقت
(یعنی انسانیت) کی خدمت کرتے ہوئے ہی خالق کائینات کو راضی کرنا آسان ہوتا ہے۔ہم نے تو نماز روزوں اور ذکر واذکار ہی سے اپنوں کے لئے جنتوں کا حصول لازم ملزوم مانا ہے۔نماز روزے تو ہم پر واجب ہیں اس سے کنارہ کشی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے لیکن خالق کائینات کا قرب و رضا تو انسانیت کی خدمت میں ہی ہے آج تک ہم نے ان خلفاء راشدین کی خوبیوں سے ماورائیت اختیار کی ہوئی ہے تو آج ہی سے ہمیں خود بھی اسلامی اوصول و ضوابط پر
پوری ایمانداری کے ساتھ عمل پیرا رہنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اور اپنے اطراف بسنے والی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے، ان کے قلوب میں جگہ بنانے ہوئے، اپنے اخلاق حمیدہ سے برادران وطن میں دین کی دعوت دیتی رہنی چاہئیے۔انہیں اسلام قبول کروانے کے ہم مکلف نہیں ہمارا کام اپنے عملی زندگی سے دعوت دین، ان تک پہنچانا ہے۔انہیں ہدایت دینا تو خالق کائینات کا کام ہے۔ ہم اپنی طرف سے اپنا حق اداکرتے ہوئے خالق کو راضی کریں یہی ہمارے لئے کافی ہے۔واللہ الموفق بالتوفیق الا باللہ