مجھے پلکیں جھپکنے دو 179

مجھے پلکیں جھپکنے دو

مجھے پلکیں جھپکنے دو

شاعر: ڈاکٹر بدر منیر
تبصرہ :ثمینہ سید

کتاب اپنے اندر ایک مکمل جہان ہے. پوری کائنات کہکشاؤں جیسی چمک دمک, بادلوں جیسی گھن گرج, بوندوں جیسی نرمی,موسموں جیسےتغیروتبدل اور محبوبہ جیسی قوسِ قزح اپنے دامنِ خوشرنگ میں سموئے جب دھرتی کے سینے پہ اترتی ہے تو لہجے اور لفظوں کی سحرطرازیاں جذبوں کی عکاسی کرتی اور رنگ بکھیرتی نظر آتی ہیں.
اگر کتاب غزل کی ہوتو پھر ہرشعر اپنی کہانی نرالی ہی چھب سے دکھاتا ہے قبولیت کے دلنواز مراحل سے گزر جائے تو دلوں پہ نقش ہوتا جاتا ہے. اور نقش ہونے کے وصف سے عاری ہو تو رد ہوجاتا ہے.شاعری فوری اثر کرتی ہے یا پھر تاثیر سے خالی ہونے کی چغلی کھاتی ہے. شعر پڑھتے ہی کتاب کے پورے مزاج کی اور شاعر کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی رمز سمجھ آجاتی ہے. اسلوب طے ہوجاتا ہے.
جناب ڈاکٹر بدر منیر زمانہ طالب

علمی سے ہی شعروادب سے جڑ گئے.ایف جی سر سید کالج راولپنڈی کے ادبی مجلہ “سر سیدین” کا مدیر بنا دیا گیا. اگلا قدم گورنمنٹ کالج لاہور تھا یہاں بھی ان کی شخصیت نے اپنا اعتراف کروا لیا. اور وہ “راوی ” کے مدیر بنے. ایم اے اردو اور ایم فل کرنے کے بعد علمی سفر جاری رہا. انکی شاعری بھی کتاب میں مرتب ہونے کے لیے تکمیل کے مراحل سے گزر رہی تھی. اور اب انکی لگ بھگ پندرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں. انکی شاعری کلاسیکی رنگ اور رچاؤ سے مہکتی ہے. تازگی اور شگفتگی ان کا خاصا ہے.
طنزومزاح کو بھی شاعری کے سانچوں میں ڈھالتے ہیں. لیکن ان کے ہاں “مزاح” شائستگی سے اور تہذیب کے دائرے میں نمو پاتا ہے. جبکہ طنز معاشرتی رویوں پر پوری کاٹ رکھتا ہے.نعت اور سلام لکھنے کی سعادت سے بھی فیض یاب ہیں. ان کی شاعری کی طرف بڑھتے ہیں.

ذہن ودل کی روشنی, نطق و زباں کی روشنی
ذکرِ ختم المرسلین ﷺ,دونوں جہاں کی روشنی
دشمنوں کے درمیاں بھی بھائی چارہ ہوگیا
تیرہ بختوں کا ملی امن و اماں کی روشنی

تاثیر سے بھرے اشعار عقیدت و احترام کی عکاسی کرتے ہیں.اپنے اصل سے محبت اور جڑت کا اظہار کرتے ہوئے سلام پیش کرتے ہیں.

نیزے پہ قد یہ کس نے نکالا لبِ فرات
ہرسمت ہو گیا ہے اجالا لبِ فرات
سجدے سے طے ہوا تھا جو نوکِ سناں تلک
ملتا ہے اس سفر کا حوالہ لبِ فرات

اپنے شعری سفر کو کچھ ایسے عیاں کرتے ہیں

کنجِ حیرت سے چلے دشتِ زیاں تک لائے
کون لا سکتا ہے ہم دل کو جہاں تک لائے

محبت کی رمزیں بھی مہکتی اور لَو دیتی ہیں

کسی کے بارے میں سوچتا ہے
کسی کے سینے سے سر لگا کے

اے عشق اب تو صرف ترا نام رہ گیا
مصروفیت میں ایک یہی کام رہ گیا
گو حرف و اشک دونوں تھے سامانِ گفتگو
پھر بھی ہماری بات میں ابہام رہ گیا

حالانکہ ان کا اسلوب آئینے کی طرف شفاف ہے کہیں کوئی ابہام نہیں ہے. ہزار جہتیں ہیں, ہجرو فراق کے قصے ہیں.وصل کی داستانیں ہیں تو غمِ دوراں پہ ملول و آزردہ بھی ہیں.

کاغذ کے لبادے ہوں, دلوں میں ہوں الاؤ
پھر دیر کہاں شہر کو جلنے میں لگے گی

محبت کے سرابِ مستقل میں
حسابِ روزوشب کوئی نہیں ہے

اک اور صدی چاہیے ان اہلِ نظر کو
جو پوچھتے ہیں غالب و اقبال میں کیا ہے

دیکھ کر میری پیاس کی شدت
ہو رہا ہے پرے پرے دریا
بیٹھ جاتا ہوں جب کنارے پر
مجھ سے لیتا ہے مشورے دریا

مجھے خبر ہے کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہوں میں اپنے دل کا دیا جلاتا, مجھے بتاتا

کیا ضروری ہے کہ اب اہلِ جہاں کے سامنے
زندگی میں ہوگئی ہے جو کمی, ظاہر کریں

کیا کہنے, کیسی حقیقت پسندی ہے کیا بھرم ہے. ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں اوزان کی پوری جانکاری, استعارے, تشبیحیں اور روزمرہ کے محاورے شاعری کو الگ ہی رنگ دیتے ہیں. بڑی بحر کا حسن اپنی جگہ, چھوٹی بحر پر بھی مکمل دسترس رکھتے ہیں.

اضطرابِ بے پایاں
ساعتِ سکوں بھی ہے

نگاہِ فتنہ ساماں کی کبھی جب یاد آتی ہے
نظر میں دیر تک طوفانِ ابرو باد رکھتاہوں

راکھ ہوئے ہیں کتنے چاند اور سورج مجھ میں
من میں جھانکوں تو بینائی چھن جاتی ہے

سر پھوڑ کر جنوں کو سکوں مل گیا مگر
دکھتی نہیں کسی کو بھی دیوار کی خلش

یہ احتیاط ضروری تھی کوچ سے پہلے
چلے تو زادِ سفر میں ملال بھی رکھا

حزن وملال کو اس حسن سے سنبھالا کہ زادِسفر بن گیا

لرز اٹھی ہے دیوارِ بدن بھی
یہ کن باتوں سے دل دہلا ہوا ہے

یہ کوششِ پیہم بھی بڑی چیز ہے لیکن
بن جاتے ہیں دیوار میں در دستِ دعا سے

کیا کہنے دعا کی طاقت کو کس پیرائے میں برتا کہ دیوار میں در بن گیا.

کھلی جو آنکھ تو پھر دم زدن میں ٹوٹ گیا
تمہارا خواب تھا یا آئینہ گرا ہے کوئی

بدل رہے ہیں کتابوں کے رنگ و روپ مگر
ورق ورق پہ رقم ہیں نصاب اک جیسے

ازل سے درد وغم کے, نارسائی کے وہی سلسلے ہیں. وہی کہانیاں ہیں.کہنے کا ڈھنگ نیا ہوتا ہے.

دھرتی پہ کیوں تو نے پھینکا
میں تھا نیل گگن کا پنچھی

حصولِ جاہ و منصب سے پرے ہے
طبیعت پائی اس نے مبتلا سی

بڑھ گئے بےچینیوں کے دائرے
پھر کوئی پتھر گرا تالاب میں

ڈاکٹر صاحب کے بےشمار اشعار بہت اچھے ہیں. انتخاب کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے.ان کی دوسری کتابیں جو ظریفانہ شاعری اور ایسی بہترین شاعری ہے. کہ ایک مکمل مضمون کی متقاضی ہے. جلد ہی ایک تفصیلی مضمون بمعہ شاعری آپ کے لیے لے کے آؤں گی انشاءاللہ.
نیک خواہشات

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں