کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 242

غریبوں کوہی دوسروں کی بھوک کا احساس زیادہ ہوتا ہے

غریبوں کوہی دوسروں کی بھوک کا احساس زیادہ ہوتا ہے

غریبوں کوہی دوسروں کی بھوک کا احساس زیادہ ہوتا ہے
کسی انجان پاکستانی لکھی روئیداد حال

ترتیب و ترسیل ابن بھٹکلی

کل فیروز کمہار کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔جانے کون ملنے آیا تھا۔۔میں جانتا تھا فیروز پہلی فرصت میں آکر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔
وہی ھوا شام کو دوکان پر آ کر بیٹھا ھی تھا کہ فیروز چلا آیا۔۔۔ حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔ صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد ھے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بھٹی پر دانے بھونا کرتی تھی۔۔۔ جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔۔
میں نے کہا ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ھوں۔۔

اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی، وقار اور میں پانجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔ اسکول میں اکثر وقار کے پیٹھ میں مروڑ اٹھتی تھی۔۔۔صاحب جی پیٹ پر ہاتھ رکھ روتا رہتا تھا۔۔۔ ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔۔
ایک دن میں ادھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچار کھولا۔۔۔ صاحب جی اج بھی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا۔۔۔ تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ھی یاد آتا ھے۔۔۔اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو پھیل جاتی ھے۔۔۔ پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔۔۔

صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لیں ۔۔۔ اُس ایک نظر نے اُس کی پیٹھ مروڑ درد کے سارے راز مجھ پر کھول دیئے۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں اسکے پیٹھ کی انتڑیوں کو بھوک سے بلکتے دیکھا تھا۔۔ صاحب جی وقار کی انانیت فاقوں سے اس کی آنکھوں میں چھلکتے آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ھوں۔۔اک قطرہ بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔

وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے ھی میں نے اُس کی منتیں کر کے اُس کو کھانے میں ساتھ ملا لیا۔۔۔
پہلا نوالہ پیٹ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آنتوں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔۔میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگاۓ رکھا۔اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔اور پھر اکثر ایسا ہونے لگا۔۔۔ میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں ملا لیتا وقار کی بھوکی آنتوں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔ اور میری وقار کے ساتھ۔۔۔
پیارے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔۔؟میں سکول سے گھر آتے ھی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا ۔۔۔ ایک دن اماں نے پوچھ ھی لیا۔۔۔ پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کے دیتی ھوں تو کھاتا بھی ھے کہ نہیں۔۔۔ اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ھے تجھے؟ میرے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں جب تو آتے ھی بُھوک بُھوک کی کھپ ڈال دیتا ھے ۔۔۔ جیسے صدیوں کا بھوکا ھو
میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔۔ پر اماں نے اُگلوا کے ھی دم لیا۔۔۔ ساری بات بتائی اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔۔۔ میں نے کہا اماں پراٹھے دو ھوۓ تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔ میں تو گھر آ کر کھا ھی لیتا ھوں۔۔۔ صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کی تعداد بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔۔۔
کہنےلگی وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ھے۔۔۔ مامتا تو جدا جدا نہیں ہوتی فیروزے۔۔۔ مائیں الگ الگ ہوئیں تو کیا۔؟

میں سوچ میں پڑ گیا۔ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے فیروز کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔۔۔ بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔۔۔ اگرایک بار بھرم ٹوٹ جاۓ تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔۔ اور بندہ پھر کبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔ وقار تو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔۔
اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔ اور میں جو وقار کے لئے صاحب جی تھا ایک پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔ مجھے کسی سکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا۔

صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے گھر جانے لگی۔۔“دیکھ نوراں ساگ بنایا ھے چکھ کر بتا کیسا بنا ھے” وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔
صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے گھر کام پر لگوا دیا۔۔۔ تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔۔۔ اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔ اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔۔۔ اُس کے بعد رابطہ ہی کُٹ گیا۔۔۔

کل وقار آیا تھا۔۔۔ ولایت میں رہتا ھے جی۔۔۔واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔پڑھ لکھ کر بڑا وڈا افسر بن گیا ھے جی۔۔۔ مجھے لینے آیا ھے صاحب جی۔۔۔کہتا تیرے سارے کاغذات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنوا کر تجھے ساتھ لینے آیا ہوں

اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ھے جی۔۔۔
،
صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔۔۔ یار لوگ سکول بنواتے ہیں ہسپتال بنواتے ہیں تو لنگر ھی کیوں کھولنا چاہتا ھے؟ اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔۔۔؟

کہنے لگا۔۔۔ فیروز، بھوک بڑی ظالم چیز ھے، چور ڈاکو بنا دیتی ھے۔۔۔خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔۔پیٹھ انتڑیوں سے جان نکلتی ھے۔۔۔۔۔۔ تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ھے فیروز ۔۔۔ سارے فیروز کی طرح آنکھیں پڑھنے والے نہیں ھوتے۔۔۔ اور نہ ہی تیرے جیسے بھرم رکھنے والے۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ یار فیروز تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔ چند دنوں کے بعد جب پراٹھے ایک کے بجائے بڑھ کے دو یوگئے تھے اور مکھن بھی۔۔۔ آدھا پراٹھا کھا کے ھی میرا پیٹ بھر جاتا تھا۔۔۔ اماں کو ھم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا فیروز ۔۔۔ وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔ اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔

اور میں پھر اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ تڑپتی آنتیں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا ۔۔۔فیروز اور وقار کی بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔فیروز کہہ رہا تھا مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ھے صاحب جی۔۔۔ اُس نے کہا تھا۔۔۔ مامتا تو جدا جدا نہیں ہوتی فیروز مائیں سب ایک جیسی ہوئیں تو کیا؟
بھرم ھی تو ھے جو رشتے اور دوستیاں قائم رکھتا ھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں