خاموش پرندہ (قسط نمبر 3) 174

خاموش پرندہ (قسط نمبر 3)

خاموش پرندہ (قسط نمبر 3)

ناول:حفضہ یوس
شہر:سیالکوٹ

مسکان نے آہستہ آواز میں کہا کہ میرا نام مسکان ہے۔ اتنا ہی کہنا تھا کہ مسکان کے ماموں (شوکت) اور نہ نانا جی ادھر آ گیے۔شوکت نے آ کر مسکان کے بارے میں پوچھا تو گھر والوں نے کہا کہ ہم اسے نہیں جانتے یہ کون ہے۔نانا جی نے مسکان سے پوچھا” تم جس کی بیٹی ہوں؟ اور ادھر کیوں آئی ہو؟ کون تمہیں یہاں تک لایا؟”
مسکان بہت ڈر گئی کیونکہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتے تھی۔ پھر مسکان نے کہا کہ میں رستم کی بیٹی ہوں۔ ممانی بولی” کون رستم؟ ہم کسی بھی رستم کو نہیں جانتے.مسکان بولی میں اس گھر کی نواسی ہوں سب نے مسکان کو حیرانی سے دیکھا پھر نانی جان نے مسکان سے پوچھا کہ تم کرن کی بیٹی ہو؟مسکان نے یہ سن کر سکھ کا سانس لیا کہ شکر ہے ان لوگوں کو میری اصلیت کا تو پتہ چلا۔ مسکان نے جواب دیا ”جی ہاں”میں کرن کی بیٹی ہوں۔

تو ماموں نے مسکان سے غصے میں پوچھا تو ادھر کیا کرنے آئی ہوں؟ ابھی اتنا ہی کہنا تھا کہ نانا جی اندر سے بندوق لے آئے اور مسکان پر تان دی۔ مسکان بہت ڈر گئی اور رونے لگ گئی تو سب نے مل کر بندوق کو نانا جی کے ہاتھ سے چھین لیا اور اندر رکھ آئے۔

نانی جان بولیں اسکو کیا کہہ رہے ہو ماموں بھی بولے بالکل اسکو کیا کہہ رہے ہیں اسکو گھر سے باہر نکالو۔یہ سننا ہی تھا کہ مسکان کی آنکھوں میں آنسُو آ گئے۔پھر وہ زور زور سے رونے لگی اور ان سب کے آگے ہاتھ جوڑنے لگی کہ مجھے یہاں سے نہ نکالو میں کہاں جاؤں گی۔میرے پاس سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ہے۔

پاپا نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے خُدا کے لئے مجھے یہاں رہنے کی جگہ دے دیں میں ویسا ہی کروں گی جیسا آپ لوگ کہیں گے۔لیکن نانا جی پھر بھی کہنے لگے کہ تم یہاں سے نکل جاؤ.جدھر مرضی جاؤ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ہم تمہیں نہیں جانتے لیکن مسکان اُن کے پاؤں میں گڑ پڑی اور کہنے لگی خُدا کے لیے مجھے اپنے گھر میں تھوڑی سی جگہ دے دیں۔
میں آپکی ہر بات مانو گی۔لیکن کیا مسکان کے یہ کہنے سے اسے گھر میں رکھ لیا جاتا؟شاید نہیں!اگر اتفاقاً اسی وقت مسکان کی خالہ (ادیبہ) نہ آ جاتیں تو ایسا ہر گز ممکن نہیں تھا۔جب مسکان کی خالہ نے مسکان کو دیکھا تو انہوں نے مسکان کو پہچان لیا کیونکہ وہ مسکان لوگوں کے بارے میں سب جانتی تھیں اور کرن کے ساتھ ادیبا کی بات بھی ہوئی تھی۔ لیکن ادیبا یہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ اتنے سالوں تک کرن امی ابو لوگوں سے ملنے تک نہیں آئی لیکن آج اچانک۔
یہ سب کچھ جانتے ہو? بھی کہ ادیبہ مسکان کو جانتی ہے لیکن ادیبہ نے اس بات کا علم کسی کو بھی نہ ہونے دیا اور پھر پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔نانی جان بولیں یہ کم بخت کرن کی بیٹی ہے پتہ نہیں اپنا نام مسکان بتاتی ہے۔ادیبہ بولی امی جان اگر یہ کرن کی بیٹی ہوتی تو اس کے ساتھ کرن بھی ہوتی۔وہ کدھر ہے؟ کیا یہ اکیلی آئی ہے۔اور اگر یہ اکیلی ہے آئی ہے تو کیوں آئی ہے کیا کرن نے اسکو اکیلے آنے دیا۔
نانا جان قہقے میں بولے ہمیں ان باتوں سے کیا مطلب(مسکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)اور تم اِس گھر سے چلی جاؤ تمہارے لیئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔کیا تمہارے باپ نے صرف تمھیں نکالا ہے؟تمہاری ماں کو نہیں؟وہ کدھر ہے؟
مسکان کھڑی وہ سب سنتی ہی جا رھی تھی اور شاید وہ صرف سب کچھ سن ہی نہیں رہی تھی بلکہ برداشت بھی کر رہی تھی۔صبر اور برداشت کرنے کے علاوہ اس کے پاس رہ ہی کیا گیا تھا۔وہ دل ہی دل میں اپنے باپ کو کوسنے لگی جو اسکو یہاں چھوڑ گیا تھا اور سوچنے لگی کہ اس کے جیسا باپ کسی کو نہ ملے اس نے اپنی بیٹی کی زندگی ہی تباہ کردی۔
لیکن پھر بھی مسکان نے ہمت کر کے کہا کہ آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اگر میرے باپ نے مجھے گھر سے نکلا ہے تو میری ماں کو کیوں نہیں۔میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میرے باپ نے میری ماں کو گھر سے ہی نہیں نکلا اپنے دل و دماغ سے بھی نکال دیا ہے۔ممانی بولیں اے لڑکی ہمیں اپنی باتوں میں مت گھماؤ۔مسکان بولی میں آپکو باتوں میں کیا گھماؤ گی میں تو خود اس دنیا میں گھوم چکی ہوں۔ادیبہ مسکان سے بڑے پیار سے بولی اور مسکان کے پاس جا کر کہنے لگی کہ بیٹا جو بھی بات ہے ہمیں بتاؤ ہم تمہاری مشکل حل کریں گے۔مسکان نے سکھ کا سانس لیا کہ کوئی تو اسے سمجھے گا۔

مسکان بولی آج سے تقریباً 10(سال) پہلے ماما کا اِنتقال ہوگیا تھا اور پاپا مجھے وہاں سے لے کر شہر لے آئے تھے وہاں آ کر مجھے پتہ چلا کہ پاپا نے ماما ساتھ دوسری شادی کی تھی اور اس کے بعد پاپا کا رویہ مجھ سے ٹھیک نہ رہا۔
مسکان نے سب کچھ بتا دیا جو اس کے ساتھ 10 سال میں ہوا تھا جب سب کچھ مسکان کے ننھیال والوں کو پتہ چلا تو نانا جی بولے جو لوگ دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں اُن کے ساتھ خود بھی دھوکہ ہی ہوتا ہے۔
مسکان بہت رو رہی تھی نانی جان نے مسکان کو اپنے پاس بلایا اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ اب تم ہمارے پاس ہی رہو گی۔ادیبہ نے بھی کہا کہ ہاں اب تم ادھر ہی رہو گی۔لیکن باقی سب لوگوں کو اس پر اعتراض تھا۔لیکن ادیبہ نے کہا

کہ اگر آپ مسکان کو اِدھر نہیں رکھیں گے تو آج کے بعد میں نہیں آؤں گی۔یہ کہنا تھا کہ نانا جان غصہ میں چلے گئے اور ساتھ ہی ساتھ ماموں بھی چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد گھر کا ماحول بہتر ہوا۔مسکان کی نانی بہت خوش تھیں کہ اُن کے ساتھ مسکان اسی گھر میں رہے گی۔نانی جان نے مسکان سے کرن کے بارے میں پوچھا اور اس کے باپ کے بارے میں بھی مسکان نے ماما کے بارے میں بتایا اور پاپا کے بارے میں کہا ہم بعد میں بات کریں گے۔میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ادیبہ نے کہا ٹھیک ہے تم آرام کرلو۔

مسکان کمرے میں جا کر سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔اتنے میں ادبیا بھی ادھر آ گی اور مسکان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا کہ تمہیں نیند نہیں آ رہی کرن کو بھی کسی کے گھر نیند نہیں آتی تھی اور کہا کہ اب یہ تمہارا ہی گھر ہے۔کیونکہ اب تم یہاں ہی رہوگی۔ کہیں نہیں جاؤ گی۔یہ سن کر مسکان کو اطمینان ہوا

اور وہ اپنی خالہ کی گود میں سر رکھ کر سو گئی۔جب مسکان کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کیا اور پھر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئ۔جب نانی جان نے مسکان کو دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا لیا۔اور کہنے لگی کہ تم ادھر بیٹھ جاؤ اور یہ بتاؤ کہ کیا کھاؤ گی۔مسکان نے کہا کہ مجھے بہت بھوک لگی ہوئی ہے

آپ جو چاہیں کھلا دیں۔میں سب کچھ خوش ہو کر کھا لیتی ہوں۔نانی جان یہ سن کر بہت خوش ہوئیں کیونکہ کرن کی عادتیں مسکان سے ملتی تھی۔ بیٹا تم بلکل اپنی ماں پر گی ہو۔وہ بھی سب کچھ خوشی سے کھا لیتی تھی۔ابھی یہ کہنا یی تھا کہ آواز آئی کہ وہ کرن ہی تھی جو گھر کی عزت پامال کر کے گی تھی۔اگر اس کی عادتیں ویسی ہی ہیں

تو یقیناً یہ بھی ایسا ہی کرے گی۔ یہ سن کر مسکان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ رونے لگی۔خالہ بولیں ضروری نہیں کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر ہوں۔کچھ دیر بعد مسکان نے کھانا کھا لیا تو نانی نے کہا بیٹا پیٹ بھر کے کھانا۔مسکان نے جواب دیا کہ امی جان میرا پیٹ بھر گیا ہے۔ امی جان سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور وہ پھر مسکان سے پیار کرنے لگیں۔ وقت گزرتا گیا۔حالات تبدیل۔ ہوتے رہے۔بہار خزاں میں اور گرمی سردی میں بدلتی رہی۔
اب مسکان کی زندگی بھی بدل چکی تھی۔اس کی زندگی میں بھی نیے? موڑ آ چکے تھے۔ خوشیوں کے پل بھی اسے نصیب ہو چکے تھے۔اور وہ اب اپنی زندگی میں بہت خوش تھی۔اللہ کا شکر ہے کہ مسکان اپنی زندگی میں واپس آچکی تھی۔ اُس نے امی جان سے کہہ کر پھر سے کالج جانا شروع کر دیا تھا اور اب وہ یونیورسٹی جایا کرتی تھی۔ ماموں کا ایک بیٹا جس کا نام تیمور تھا۔ وہ اور مسکان دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ شروع شروع میں تو یہ دونوں آپس میں بہت جھگڑتے تھے۔
لیکن ان دونوں کی لڑا? کب محبت میں بدل گ? کسی کو بھی اس بات کا علم نہ تھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کو ابھی تک پرپوز نہیں کیا تھا۔مسکان چاہتی تھی کہ تیمور اس کو پرپوز کرے لیکن تیمور چاہتا تھا کہ مسکان اسکو پرپوز کرے۔ بس اسی بات میں دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے کو پرپوز نہیں کیا تھا۔
لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کی خواہشات کو مدنظر رکھتے تھے۔ مسکان ہر اتوار کو تیمور کے لیے اسکے پسند کے کھانے بناتی تھی اور جب بھی مسکان کا موڈ خراب ہوتا تیمور اس کے لیے گول گپے لاتا تھا۔ کیونکہ مسکان کو گول گپے بہت پسند تھے۔ گول گپے دیکھتے ہی اس کا موڈ ٹھیک ہو جاتا تھا۔ اور پھر دونوں چھت پہ بیٹھ کے گول گپے کھایا کرتے تھے۔
مسکان وین پر یونیورسٹی جایا کرتی تھی لیکن جس دن تیمور اس سے ناراض ہوتا وہ جان بوجھ کر دیر سے تیار ہوتی تھی اور جب وین والا اُسے چھوڑ کے چلا جاتا تو وہ تیمور کے ساتھ جاتی تھی۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ تیمور نے مسکان سیکہا کہ میری پاڑٹی آ رہی ہے اس میں تم میرے ساتھ جا? گی۔ میں ماما پاپا سے اجازات لے لوں گا

لیکن مسکان نے کہا کے میں نہیں جا?ں گی کیونکہ میرے امتحان نزدیک آرہے ہیں۔تیمور کو بہت غصہ آیا کہ میں جب بھی اسے باہر جانے کو کہتا ہوں تو کو? نہ کو? بہانا کر لیتی ہے۔اس بات پر دونوں کی لڑا? ہو گ? اور تیمور اور مسکان نے آپس میں تقریباً ایک ہفتے تک کو? بات نہ کی۔ اس سے پہلے ایسا بلکل نہ ہوا تھا۔ اگر دونوں ایک دوسرے سے ناراض بھی ہوتے تو زیادہ سے زیادہ دو دن تک اس سے زیادہ تو کبھی بھی نہیں۔
لیکن اس دفعہ ایک ہفتہ ہونے کو تھالیکن دونوں میں ابھی تک صلح نہ ہو?۔ معمول کے مطابق مسکان نے تیمور کے پسند کے کھانے اتوار کو بنا? لیکن تیمور نے یہ کہہ کے سب کو حیران کر دیا کہ اب مجھے یہ سب کچھ نہیں کھانا کیونکہ اب میری پسند بدل گ? ہے۔سب بہت حیران ہو? کہ تیمور تو ان سب کھانوں کا شیدا? تھا لیکن اب اسے کیا ہوا۔ سب نے حیرانگی سے پوچھا کہ کیوں؟تو تیمور نے شرماتے ہو? کہا کے میں جسے پسند کرتا ہوں اُسے یہ سب کچھ بنانا نہیں آتا اور میں اُسے کسی بھی مشکل میں نہیں دیکھ سکتا اس ل? میں نے اپنی پسند ہی بدل دی ہے۔
یہ سن کر سب بہت حیران ہو? اور مسکان بھی کہ تیمور تو اسے پسند کرتا ہے اور وہ میرے بارے میں کیوں ایسا کہہ رہا تھا۔ ابھی کسی نے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ کون ہے لیکن مسکان نے یہ سوال کر دیا اورکہنے لگی کہ اچھا تو پھر ہمیں بھی بتا? کہوہ کون ہے جس کے بارے میں تم ہمیں بتا رہے ہو۔ جو اتنی نازک ہے کہ کھانا بھی نہیں بنا سکتی۔
تیمور بولا کہ ماما جان آپ نے چولہے پر کچھ رکھا ہے؟ مجھے تو کچھ جلنے کی بو آرہی ہے۔ ممانی جان بہت حیرانی سے بولی نہیں بیٹا میں نے تو کچھ بھی نہیں رکھا ہوا لیکن تیمور بولا کہ مجھے تو بہت بو آرہی ہے۔ مسکان بولی جی ہاں! میں نے چولہے پر دودھ رکھا ہے۔ ابھی دیکھتی ہوں۔ یہ کہ کر مسکان کچن میں چلی گ?

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں