ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتی سیاست! 164

ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتی سیاست!

ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتی سیاست!

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
ہماری سیاست سے نفاست ،شرافت اور شائستگی کے عناصر برقرفتاری سے ختم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ بہتان بازی ،گالی گلوچ ،ہاتھا پائی نے لے لی ہے،اس کے مظاہرے قومی اسمبلی سے لے کر بلو چستان صوبائی اسمبلی کے احاطے تک دکھائی دے رہے ہیں، قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا،ممکن ہے کہ آنے والے چند روز میں عوامی حافظے سے محو ہو جاتا ،مگر بلوچستان اسمبلی کی واقعات نے راکھ میں دبی چنگاریوں کو ایک بار پھر ہوا دے دی ہے،

اس سے پہلے بھی بجٹ عام طور پر گرما گرم ماحول ہی میں پیش ہوا کرتے تھے، مگر جو کچھ اس بار دیکھنے میں آرہاہے، اس کی مثال ملکی پارلیمانی تاریخ میں بہت کم ہی ملے گی،اس لیے ضروری ہے کہ ان واقعات کو محض اپوزیشن کا ہنگامہ قرار دے کر نظر انداز کرنے کے بجائے قانون سازی کی جانی چاہئے، تاکہ آنے والے وقت میں ایسے ناخوشگوار طرزِ سیاست سے بچا جا سکے، قومی اسمبلی کی سطح پر بد مزگی کے کیس کو جس جلد بازی سے نمٹایا گیا ہے

،اس کا حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو وقتی فائدہ ضرور ہو گا، مگر ارکان پارلیمان میں مڈ بھیڑ کے محرکات جوں کے توں ر ہیں گے اور یہ خدشہ موجود رہے گاکہ ایوانِ پارلیمان میں غصے کا آتش فشاں کسی وقت دوبارہ پھٹ سکتا ہے۔سیاست میں اختلاف رائے ہوتا ہے ،مگر اس اختلاف رائے کا اظہار تہذیب کے دائرے میں رہ کر بھی بیان کیا جا سکتا ہے، عوام وفاقی اور صوبائی ارکان پارلیمان سے سنجیدہ فکر اور مہذب ہونے کی توقع رکھتے ہیں

،مگر یہاںگریبان پکڑتے‘ گالیاں دیتے اور سطحی مفادات کی خاطر معقولیت کی حد سے گرتے ہوئے ارکانِ پارلیمان نظر آتے ہیں ،گزشتہ روز کوئٹہ میں جو کچھ دیکھا گیا ، کیا ارکان پارلیمان کو زیب دیتاہے؟ ہماری سیاسی قیادت نے اپنی کوتاہیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ،حکومت اور اپوزیشن اپنی غلطیاں دھرانے میںلگے ہیں، حکومت ہمیشہ معاملات سنبھالنے میںدیر کردیتی ہے اور اپوزیشن معاملات بگاڑنے کا کوئی موقع ضائع کرنا نہیں چاہتی،

اگر حکومت بلوچستان کی جانب سے حزب اختلاف کے کارکنوں کے لیے اسمبلی میں جانے کے راستے بند نہ کیے جاتے اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندگان کے ذریعے افہام و تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تو جو تماشا اسمبلی کی عمارت کے باہر لگایا گیا ،اس سے بچاجاسکتا تھا‘ لیکن ہمارے ہاں مخالف فریق کا وجود تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہماری سیاسی قیادت عدم برداشت اور جمہوریت کے فروٖ غ کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں نہ جمہوریت کے فروغ کیلئے باہمی مشاورت کی راہ اختیارکرنا چاہتے ہیں،اس اکیلے ہی کھیلنے کے مزاج نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن نے

سپیکر بلوچستان اسمبلی کوبھی اسمبلی کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا ،جبکہ وزیر اعلیٰ کو داخلے کے لیے پولیس کی مدد لینا پڑی تھی،اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کے بقول سارا دنگل مطالبات منظور نہ کرنے کے ردِ عمل میں تھا، یہ بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے ،کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست تو ترقیاتی فنڈز کے گرد ہی گھومتی ہے۔
ہماری سیاست خدمت خلق کے نام پر کاروبار بن چکی ہے،ہمارے سیاسی نمائندے جتنا پیسہ لگا کر ایوان میں آتے ہیں ،اس سے کئی گنا زیادہ کمانا چاہتے ہیں ، اس کمائی کاترقیاتی فنڈز بھی ایک ذریعہ ہے ،ہر دور اقتدار میں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر لے جاتے رہے ہیں،مگران ترقیاتی فنڈز سے علاقے میں ترقی ہوئی نہ عوام کی زندگی میں کبھی کو ئی تبدیلی آئی ہے، ہر دور اقتدار میںترقیاتی فنڈز کے

نام پر قومی خزانہ لوٹا جاتا رہا ہے ،اس کا آڈٹ سرکاری سطح پر کروایا جانا چاہیے اور اس کے نتائج عوام کے لیے جاری ہونے چاہئیں، تاکہ عوام جان سکیں کہ ترقیاتی فنڈزکے نام پر عوامی نمائندے ان سے کو نساکھیل کھیلتے رہے ہیں ۔
اسمبلیوں میں بیٹھے رہنما اپنے حلقوں کے عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہیں ،مگرانہوں نے ہمیشہ ایوان میں عوام کے حقوق کی جدوجہد کی بجائے ذاتی مفادات کو فوقیت دی ہے،ترقیاتی فند ز پر احتجاج بھی عوام کے نام پر ذاتی مفادات کا حصول ہے،حکومت ترقیاتی فنڈ کے مطالبات پر غور کرتے ہوئے اس بات کا بھی جائزہ لے کہ ملک کے دور دراز علاقے جہاں بنیادی سہولیات کا نشان بھی نہیں ملتا‘ کیا انہیں ملکی تاریخ میں کبھی کوئی ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں؟

ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومنے والی سیاست کا قبلہ درست کرنے کے لیے لوکل گورنمنٹ کا نظام ناگزیر ہے، اصولی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھے معزز ارکان کو قانون سازی کا ہی کام زیب دیتا ہے، جبکہ ترقیاتی منصوبوں کی تعمیل کے لیے بنیادی جمہوری اداروں کو بروئے کار لایا جانا چاہئے، ملک میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کا خانہ خالی رکھ کر نہ ہم ملکی سطح پر جمہوری اقدار قائم کر پا رہے ہیں اور نہ بہترین طرزِ حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں