صحت انسانی اور شافی السقم رب دو جہاں 280

اصلاح معاشرہ کیا ناممکن کام ہوکر رہ گیا ہے؟

اصلاح معاشرہ کیا ناممکن کام ہوکر رہ گیا ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966504960485

https://www.samaa.tv/urdu/life-style/2021/06/2310624/
ممبر و مہراب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو پورے گاؤں کی تقدیر سنوار سکتا یے۔گاؤں شہر کے ہر عاقل بالغ کو پانچ وقت کا نمازی بناسکتا ہےمعاشرے سے ہر اقسام کی خرابی بیماری کو دور کرسکتا ہے
خلیج کے صحراؤں میں پیٹرو ڈالر کمانے مصروف معاش، ہم تارکین ھند کو اس بات کا بخوبی عملا” ادراک رہتے،

ہمارے لئے جہاں پاکستانی عوام عموما جاہل اجٹ و سنکھی مزاج مشہور ہیں کیا ہم تصورکرسکتے ہیں کہ ایسے پاکستانی معاشرے کے اوڈھا والا فیصل آباد اور پاکستان کشمیر کے نہایت پس ماندہ ضلع حویلی جبی سیدان گاؤں سمیت انیک چھوٹے چھوٹے گاؤں شہر، بمثل شہر مدینہ قرون اولی اپنی صد فیصد تعلیمی خواندگی کے ساتھ، مختلف جرائم سے پاک، نہ صرف پاکستان بلکہص عالم کے ہم مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہیں

فیصل آباد پاکستان کا ایک ہزار گھر والا گاؤں اوڈھا والا آج نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک رول ماڈل بمثل شہر مدینہ گاؤں یے۔ اس گاؤں کی مرکزی جامع مسجد میں حافظ محمد آمین مدظلہ جب سے امام و خطیب مسجد بن کر آئے تو انہوں نے اپنے ماتحت اس گاؤں کے تمام مرد و نساء کی اسلامی خطوط تربیت کا عظیم بیڑہ اپنے کمزور و ناتواں کندھوں پر اٹھالیا۔ شروع شروع میں اپنے حسن اخلاق سادگی خوش اخلاقی متانت سے لوگوں کا دل

موہ لیا پھر وعظ و نصائح سے گاؤں والوں کی ذہنی تربیت شروع کردی۔ چونکہ امام مسجد حافظ قرآن بھی تھے اور عصری تعلیم یافتہ ایم اے ڈبل گریجویٹ مکتب اہل حدیث کی فکر سے سرشار، سلف و صالحین کے عملی زندگی میں خود اپنے آپ کو ڈھالے ہوئے تھے۔ اپنی متانت اور حلم و علم کی وجہ، اختلافی موضوعات کو چھیڑنے اور اپنے مکتبہ فکر کی بات منوانے پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لئے اپنی خوش اخلاقی اور خوش گفتاری سے، لوگوں کے دل جیتتے چلے گئے اور ایک دن بعد خطبہ جمعہ اپنے خطاب بعد سکریٹ پان گٹکا کے خلاف مدلل بیان کے

ساتھ مشورتا گاؤں والوں کے سامنے نہ صرف سگریٹ بیڑی پینے سےاجتناب کی بات رکھی بلکہ ان چیزوں کو گاؤں شہر میں فراہم کروانے سے باز رہنے کی درخواست بھی کرڈالی۔چونکہ پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کی وجہ سےاکثر گاؤں دیہات میں ویسے بھی شراب بہت کم بکتی ہے گاؤں کے بڑوں نے گاؤں کے تمام دکانداروں سے مشاورت کے

بعد گاؤں کی تمام دوکانوں میں سگریٹ پان بیڑی و دیگر گٹکا وغیرہ بیچنے پر خود ساختہ پابندی لگا دی۔جو اس کے عادی تھے وہ باہر گاؤں سے شروع شروع میں لاکر اپنی طلب مٹایا کرتے تھے پھر دھیرے دھیرے ان اشیاء کی عدم دستیابی نے، ان لوگوں کو بھی ان سگریٹ تمباکو سے جان چھڑانا آسان کردیا اور یوں کچھ دنوں ہفتوں مہینوں کے محنت سے ایک ہزار گاؤں کا یہ شہر تمام اقسام کی ان لغو چیزوں سے پاک ہوگیا
جب لوگ کسی کی بات ماننے لگیں تو کہنا کروانا آسان ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے ایسے کسی شخص کو سامنے آنا جاہئیے

جو خود متبع سنت ہو عمومی طور عیوب سے پاک ہو،گناہ سے بچنے والا ہو ایسا کوئی شخص وہ مسجد کا امام بھی ہے تو اور مسئلہ آسان ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی لوگ امام مسجد کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ اور اگر یہ تمام نیک خصوصیات امام میں پائی جائیں اور کوئی بھی عام دکھائی دینے والی برائی سے امام مسجد بچا ہوا پایا جائے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ خوش اخلاق بھی ہو تو یقینا وہ اکیلا ہی اپنے اخلاق حسنہ سے، پورے معاشرے کے سدھار کا سبب بن سکتا ہے۔ خصوصا وہ اپنی کوئی بھی بات زبردستی منوانے کے بجائے، حسن اخلاق سے نفع نقصان پر مشتمل مدلل دلائل کے ساتھ بات عوام کے سامنے رکھتے ہوئے، اس پر عمل کرنے کے دنیوی و اخروی

فائیدے گنواتے ریے تو لوگوں کو اسکی بات ماننا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ اب اس امام مسجد حافظ محمد آمین کے سامنے مسلم معاشرے میں پائی جانے والی شادی بیاہ کے، بے شمار غیراسلامی رواج تھے جن میں جہیز، دکھاوے کے نام و نمود کے لئے بے جا اصراف ناچ گانے کی محفلیں اصل رکاوٹ تھی لیکن کوئی بھی انسان خلوص و محنت و نیک مقصد کے ساتھ کام شروع کردیتا ہے تو اوپر آسمان سے مدد و نصرت بھی آہی جاتی ہے اور یوں نامکن کام بھی آسانی سے بنتا چلا جاتا یے۔ آج اوڈھا والا فیصل آباد پاکستان کا ہر شہری پانچ وقت کا نمازی،

اسکول کی حد تک صد فیصد تعلیم یافتہ اور گریجویش کی حدتک تقریبا 95% تعلیم یافتہ گاؤں ہونے کے ساتھ ہی ساتھ، ہر اقسام کے مذہبی خرافات سے پاک و صاف، بچہ مزدوری سے ماورا، ایک مثالی گاؤں بن چکا ہے۔ پاکستانی عام روایات کے برخلاف اس گاؤں میں ایک بھی قبر پکی تعمیر نہیں ملتی۔ کسی بھی گھر کے بچوں کے شادی بیاہ کے موقع پر گانے بجانے و غیر ضروری رسوم رواج حتی کہ جہیز کی لین دین کا سودا بھی نہیں ہوتا،گاؤں کی

رعایا صد فیصد دینی و عصری تعلیم سے آشنا پنچ وقتہ نماز روزے کی پابند، متبع سنت رہنے کی کوشش کرتی پائی جاتی ہے۔ اسی لئے کسی نے کیا خوب کہا ہے جس دنیا کے لوگ خلاء و آسمانوں کی بلندیوں پر پرواز کرتے کرتے چاند پر بھی جاچکے ہوں اس انسان کے لئے کوئی چیز کرنے کا حتمی فیصلہ کرلے تو اپنے گول یا ھدف کا پانا کونسا بڑا کام ہے۔ لیکن جب صاحب مقتدر لوگ ہی اپنے معاشرے میں سدھار لانے کی جدوجہد کرنے سے ماورائیت اختیار کرتے پائے جاتے ہیں تو ہر چھوٹی سی چھوٹی اجتماعی خرابی سےمعاشرے کو پاک و صاف کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ایسے ایک دو دو گاؤں و دیہات میں ایک دو فردی کوششوں سے اسلامی انقلاب رونما کرتے کرتے،

پورے معاشرے کو اسلامی رنگ و روپ میں تبدیل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی کام، ممکن نہیں سوچ کر چھوڑ دیا جائے تو ہر چیز کا حاصل کرنا ناممکن سا ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کے لئے صاحب مقتدر لوگوں کو چاہئیے کہ وہ کسی بھی بہانے سے، نہ صرف شرک و بدعات میں غرق لوگوں کو بلکہ سودی و دیگر غیرقانونی و غیر اسلامی بیع و شراء امور سے وابسطہ کسی بھی قسم کے شرپسند پسند عناصر کی پشت ہناہی سے خود بھی باز رہیں اور ان کی اعانت سے اپنے دامن کو داغدار ہونے سے بچائیں اور اللہ پر مکمل توکل کئے معاشرے کی

اصلاح کا بیڑہ اٹھائیں پھردیکھیں اللہ کی مدد و نصرت کیسے ہم آپ کے پاؤں چومتی پائی جاتی ہے۔ اور کیسے کوئی بھی مسلم اکثریتی معاشرہ اسلامی رنگ و روپ میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ہمیں امید ہے،جنوب ہندستان خلیج عرب ساحل سمندر پر، سابقہ بارہ سو سے چودہ سو سال قبل سے آباد، عربی النسل اہل نائط کا مسکن، سابقہ کئی صدیوں سے،

پورے اکھنڈ بھارت میں عملی اسلام پر عمل پیرا مشہور، اپنے عائلی صد فیصد تنازعات محکمہ شرعیہ میں ہی حل کراتا عمومی طور جرائم سے پاک تعلیم یافتہ بھٹکل معاشرے کو، معاشرے میں ہی موجود علماء حضرات کی ایک کثیر تعداد، گرچاہےتو تسلسل کے ساتھ تھوڑی سی کوشش سے، بھٹکل کا مسلم اکثریتی معاشرہ یقینا پورے بھارت کے لئے ایک مثالی شہر ثابت ہوسکتا ہے واللہ الموافق بالتوفئق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں