حاضر اللہ سائیں۔سفر نامہء حج کا نیا انداز 215

حاضر اللہ سائیں۔سفر نامہء حج کا نیا انداز

حاضر اللہ سائیں۔سفر نامہء حج کا نیا انداز

تحریر؛ زاھد حسن چغتائی
حاضر اللہ سائیں بادی النظر میں حج کا سفر نامہ ھے لیکن اس کے اسلوب اور طرز نگارش کو جانچ کر یہ طے کرنے کی ضرورت ھے کہ بقول ارشد ملک اس کو سفر نامہ کہا جائے یا کچھ اور۔یارو یہ ھے تو سفر نامہ ھی مگر اس کے لکھنے والے نے اردو ادب میں سفر نامے کی نٹری صنف سخن م دی گئی رعایتوں سے مقدور بھر فائدہ اٹھایا ھے۔سفر نامہ مکالماتی اور مشاہداتی اسلوب کے ساتھ ساتھ تاریخ کے روز و شب کو بھی بریکٹ کرنے کا متحمل ھو سکتا ھے۔

بس ارشد ملک نے اسی صنفی رعایت سے بھرپور استفادہ کیا ھے۔بحثیت مجموعی اس سفر نامے کا اسلوب خود کلامی کا ھے اور سچ پوچھیئے تو یہ جہت مکالماتی طرز تحریر کی کوکھ سے نکلتی ھوئی محسوس ھوتی ھے۔خود کلامی کا عنصر بدرجہء اتم موجود ھونے کے باعث اس کا کینوس بہت وسیع ھو گیا ھے۔پھر جب سفر نامہ نگار جابجا اپنے

مشاھدات بصورت حقائق عہد موجود کی آب بیتیوں اور جگ بیتییوں کے ساتھ ھم آہنگ کرتا ھے تو مجذوبانہ طرز تخاطب کا سزاوار بھی ٹھہرتا ھے۔یہی نہیں کہیں کہیں اس کا بیانیہ مجذوب کی (سچی اور حقیقی) بڑ بھی بن جاتا ھے،جو اپنے تاثرء کے اعتبار سے بھلا ھی نہیں،ھوا کا تازہ جھونکا بھی محسوس ھوتا ھے۔اردو ادب کی صنف سفر نامہ نگاری میں متذکرہ بالا تمام جسارعتیں بولڈ ایکسپیریمنٹ کا درجہ رکھتی ھیں،جن پر اسلوبی اختلافات اور بحثیں بھی جنم لے سکتی ھیں اور ارشد ملک کو دانستہ طور پر اس مکالمے کے لیئے تیار رھنا چاھیئے۔۔
جہاں تک ارشد ملک کے اس سفر نامہء حج کے مواد اور نفس مضامین کا تعلق ھے،وہ ستائش اور شاباش کے مستحق ھیں کہ انہوں نے اپنے قلم کو مشک و گلاب سے معطر کر کے اس مساعی کو عام فہم طریقے سے قارئین تک پہنچایا ھے۔یہاں تک کہ ان کی تحریر ابلاغ کی ایک جیتی جاگتی مثال بن گئی ھے۔ایسی پرکار اور دل کو چھوتی ھوئی نثر کہ ھر کس و ناکس اس کے ابلاغ کا اسیر ھو کر اپنی مراد پا سکتا ھے۔حالات و واقعات کی کڑیاں ملا کر لکھنا ارشد ملک کا ھی وطیرہ ھے،پھر اس پر طرہء یہ کہ ھر واقعہ سے عبرت کا عرق کشید کرنے کے لیئے پاکستانی

معاشرے کی زندہ و جاوید مثالیں بھی دیئے چلے جاتے ھیں۔مناسک حج سے گزرتے ھوئے فاضل سفر نامہ نگار کے مشاھدات جب تاریخ کے جھرنوں سے چھٹ کر آنے والی روشنی سے ھمکنار ھوتے ھیں تو ایک سماں بندھ جاتا ھے۔اس طرح سفر نامہ اور تاریخ معانقہ کرتے ھوئے دکھائی دیتے ھیں،بل کہ اس کے دوش پر مستقبل کے زائچے بھی بخوبی اختراع ھو جاتے ھیں۔نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایںنجا۔۔۔اس ضمن میں فرمودات رسول ص کا بیان ایسے

ولولے سے کرتے ھیں کہ ایمان دلوں میں تازگی سے بھر جاتا ھے۔اس سفر نامے کا ایک دلگداز عنصر ارشد ملک کی فطری معصومیت بھی ھے،تحیر اور تشنگی اس سے آگے کی دو جہتیں ھیں،جو ان کی تحریر کو امر بنا دیتی ھیں۔مدینہ شریف کی قربت کا احساس ھی دلگداز ھے،جنت البقیع میں دفن ھونے کی معصومانہ خواھش اور پھر اس کی تکمیل کا انداز بہت اچھوتا اور نرالا ھے۔اپنے ھاتھ کے ناخن کاٹ کر جنت البقیع میں دفن کر آنا ایک روحانی تجربہ ھے،جو ارشد ملک نے کیا۔اس کے زیر اثر ایک طرز احساس ان کے داخلی وجود میں پھوٹا ھے،جس کی بازگشت تا عمر انہیں سنائی دیتی رھے گی۔
سفر حج میں ارشد ملک خوابوں کی مالا پرونے اور انہیں تعبیر کرنے کے مراحل سے دوچار رھے۔یہ ایسا کام ھے جو حضوری اور روحانی مدارج سے گزرے ھوئے ممکن ھی نہیں۔ارشد ملک کو مبارک کہ وہ ان مراحل میں بھی سرخرو رھے۔

کمال اس میں ان کا نہیں بل کہ حضوری قبول کرنے والوں کا ھے۔مدینہ شریف سے دم رخصت باران رحمت کی خواھش یقینا” طفلانہ اور معصومانہ ھے۔اس پیرائے میں یہ جملہ کہ ان کا طرز عمل ایک ضدی بچے کا تھا،کسی حد تک سوئے ادب بھی ھے،لیکن پھر ان کا کہنا کہ یہاں آنے والے ھر سوالی کو جھولی بھر بھر کر خراج ملتا ھے اور کوئی اس سرکار سے خالی ھاتھ نہیں جاتا،ان کے ایمان اور تیقن کی گواھی دیتا ھے۔
دربار رسالت ص میں ان کی حاضری سفر نامے کے باطن کی روشنائی ھے،جس سے ایسے کئی شہپارے تراشے جا سکتے ھیں

۔یہی نہیں بلکہ مدینہ شریف اور مکہ مکرمہ کے جملہ آثار پر ان کی حاضری میں اسی روشنائی کی جگمگاھٹوں کا پرتو دکھائی دیتا ھے۔ اس پاک دھرتی پر وہ جہاں بھی گئے،انہیں رسالت مآب ص کی یاد کہیں بھی نہیں بھولی۔۔۔جان ھیں وہ جہان کی جاں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔یہی تاثرء ان کے سفر نامہ کے پورے کینوس پر پھیلا ھوا ھے۔حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ان کے سفر حج کا انعام و اکرام بھی ھے،اور صاف نظر آتا ھے کہ وہ اس اعزاز کو اپنا توشہء آخرت بنانے کے خواھاں ھیں۔
روشنی اپنے مسکن خود تلاش کرتی ھے۔ارشد ملک کا سفر نامہ حج پڑھنے کے بعد یہ وثوق راسخ ھو جاتا ھے کہ وہ بلاوے کے نتیجے میں اللہ اور اسکے رسول ص کے دربار میں حاضر ھوئے اور جو یکسوئی و حضوری انہیں وھاں میسر آئی وہ ودیعت ھوا کرتی ھے۔ان کا مذکورہ سفر حج پڑھتے ھوئے مجھے یوں لگا جیسے میں بھی ان کے ہمرکاب ھوں۔بالخصوص دربار رسالت مآب ص اور جنت البقیع میں حاضری کا ماجرہ میرے لیئے

ایک روحانی و قلبی واردات بن گیا۔ارشد ملک کے مکالمے میرے باطن کی واردات کا پرتو بن گئے اور میں محسوس کرنے لگا کہ یہ بھی میرے دل کی آواز رعد آسائے حق ھے،جو میرا وجود اور نطق فراموش کر بیٹھا تھا۔بحر طور حاضر اللہ سائیں میرے ھی نہیں ھر اھل ایمان کے دل کی آواز ھے۔ارشد ملک نے ایک نازک موضوع پر نت نئے تجربات ایسے اعتماد کے ساتھ کئے ھیں کہ بقول رومی رح مومن مرغابی کی طرح ھے،جو پانی پر تیرتی ھے لیکن جب فضاء میں بلند ھوتی ھے تو پروں کے ساتھ پانی نہیں ھوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں