خطبہ حجۃ الوداع راہنمائے انسانیت 166

خطبہ حجۃ الوداع راہنمائے انسانیت

خطبہ حجۃ الوداع راہنمائے انسانیت

تحریر شیخ الحدیث حضرت مولانا زبیراحمد صدیقیؔ
ناظم وفاق المدارس العربیہ پاکستان جنوبی پنجاب
مہتمم جامعہ فاروقیہ شجاع آباد ضلع ملتان 
  
بلاشبہ دنیائِ انسانیت اعتقادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، عدالتی، تعلیمی، ثقافتی تنزلیوں کی جانب گامزن اور رواں دواں ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ایک بار پھر زمانۂ جاہلیت کی طرف عود کر چکے ہیں۔ ہدایت کی راہیں مسدود اور ضلالت کی شاہراہیں کھلی ہیں۔ زندگی کے ہر محاذ پر مسلسل پستیوں نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اطمینان نام کی کوئی چیز لوگوں کو میسر نہیں۔ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی انسانیت مضطرب و پریشان نظر آتی ہے۔ گویا زندگی کی یہ ناؤ ڈوبنے کے قریب ہے
اور اسے کسی ایسے ناخدا کی ضرورت ہے جو اسے کنارے لگائے۔ یہ بھٹکتی انسانیت الحاد، کفر و شرک سے مایوس اور نامراد کھڑی حق کی راہ تک رہی ہے۔ مادہ پرست دنیا ہر طرح کی آسائش و آرائش کے باوجود اطمینان حاصل نہ کر کے روحانیت کی تلاش میں ہے۔ معاشی ناہمواریوں سے تنگ لوگوں نے اولاً اشتراکیت (سوشلزم) کا بت توڑ کر اب سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں عالمی معاشی نظاموں کی
ناکامی کے بعد دنیا کو ذاتی ملکیت، دولت کی منصفانہ تقسیم اور مزدور و محنت کش کی موزوں اُجرت پر مشتمل کسی غیر سودی معاشی نظام کی تلاش ہے۔ جمہوریت کے دلفریب نعرے میں گمراہ انسانیت اب جمہوریت کو استحصال اور عوام کو اقتدار سے دور رکھنے کا خطرناک طریقِ حکومت سمجھ کر کسی متبادل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ امن کے نام پہ جنگ اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ظلم و سربریت اور فساد و الحاد سے تنگ آ کر ظالم
خود راہِ امن کا متلاشی ہے۔ بے گناہوں کا بہتا خون سنگ دلوں کو موم اور انسانیت کو آبدیدہ کر کے مظلوموں کی حمایت میں اضافہ کر رہا ہے۔ ملوکیت و سلطنت کے ایوان چکنا چور ہو کر زمین بوس ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ حقوقِ نسواں کے نام پر صنفِ نازک کے استحصال کا ڈرامہ بھی فلاپ ہو چکا ہے۔ خواتین اپنے محافظوں کو عزتوں و عصمتوں کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے کر حقوقِ نسواں کا نعرہ لگانے والی این جی اوز اور افراد سے آنکھیں موند رہی ہیں۔ حیا باختہ کلچر پر سلیم الفطرت لوگ دل گرفتہ اور پریشان ہیں۔ عدل و انصاف سے محروم انسان مارنے
یا مر جانے کا فیصلہ کر کے نظمِ جہاں میں ارتعاش پیدا کر رہے ہیں۔ کرپشن، بدعنوانی، خیانت و سرقہ سے دنیا تھک ہار کر امانت، دیانت کی متلاشی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ مظلوموں، مجبوروں کی آہیں اور سسکیاں آسمان والے کے علاوہ سننے والا کوئی نہیں رہا۔ الغرض دنیا ہر لحاظ سے تہی دامن ہو چکی ہے اور انسانیت کو سچی اور صحیح راہنمائی کی ضرورت ہے۔ لیجئے آسمانوں سے راہنمائی حاصل کیجئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دوٹوک خطبہ  کا ایک ایک حرف اپنے دلوں میں اُتارئیے جو ۱۰ہجری کے ۹ ذی الحجہ کی دوپہر میں
ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد صحابہ کے جم غفیر کے درمیان جبلِ عرفات پر دیا گیا تھا، بلاشبہ یہ خطبہ انسانی حقوق کا سب سے بہترین چارٹر، انسانی مساوات کا ضامن، قیامِ امن کا فارمولہ، معاشی ناہمواریوں سے نجات کا راہ دہندہ، معاشرتی، سیاسی، سماجی، تعلیمی، اعتقادی الغرض ہر میدان میں صحیح سمت متعین کرنے والا ایک آسمانی پیغام ہے،
جسے بیان کرتے ہوئے حقوقِ انسانیت کے اس پیغامبر نے عملاً بھی مساواتِ انسانی کا درس دیا۔ جب آپ یہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ کے سب سے قریب آزاد آدمیوں کی بجائے دو ایسے غلام تھے جو غلامی سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت رہائی حاصل کر چکے تھے۔ ان میں سے ایک سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ سیاہ فام اور حبشی النسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے اور دوسرے سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود پر  چادر تان کر سایہ کیے ہوئے تھے۔ 
اس خطبہ کو خطبہ حجۃ الوداع سے موسوم کیا جاتاہے۔ یہ خطبہ حدیث کی مختلف کتب میں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متفرق طور پر منقول ہے۔ ان بکھرے موتیوں کو جمع کر کے  مالہا کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 
خطبہ مسنونہ کے بعد: 
تاکید تقویٰ: 
اوصیکم عباد اللّٰہ بتقوی اللّٰہ واحثکم علی طاعتہ واستفتح بالذی ہو خیرمیں تمہیں اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی تاکید کر رہا ہوں اور میں خیر سے شروع کر رہا ہوں۔ 
تقویٰ کا سب سے ادنیٰ درجہ شرک سے بچنا اور توحید اختیار کرنا ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ دل کو ماسوائے اللہ تعالیٰ کے سب سے فارغ کرنا ہے۔ گویا کہ آپ نے خطبہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنے اور اس کی کامل اطاعت کا حکم دیا ہے۔ بندے کا جس قدر حق تعالیٰ سے معاملہ درست ہوتا ہے اس قدر بندہ کے معاملات درست ہوتے ہیں۔ 
شاید آئندہ ملاقات نہ ہو سکے
ایہا الناس انّی واللّٰہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ہذا بمکانی ہذا فرحم اللّٰہ من سمع مقالتی الیوم فوعاہا۔ (سنن دارمی: ۲۳۲)
’’اے لوگو! اللہ کی قسم، مجھے نہیں معلوم شاید  آج کے دن کے بعد میں تمہیں اس جگہ نہ مل سکوں، بس اللہ اس پر رحم کرے جو آج کے دن میری بات سنے پھر اسے محفوظ رکھے‘‘۔ 
شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرائن و اشارات یا وحی کے ذریعے معلوم ہو چکا تھا کہ آپ کا سفر آخرت شروع ہونے کو ہے اور آپ دنیا کو سدھار کر سوئے جنت و رفیق اعلیٰ روانہ ہونے کو ہیں اور یہ ملاقات آخری حج کی اجتماعی ملاقات ہے، مکرر فرمایا میری باتوں کو پورے دھیان سے سنو، سمجھو یاد کرو، یاد رکھو کہ میں تمہیں وصیتیں و نصیحتیں کر رہا ہوں۔ 
جان و مال کا تحفظ
فاِنّ دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرامٌ کحرمۃ یومکم ہذا فی بلدکم ہٰذا، فی شہرکم ہذا  (صحیح بخاری: ۱۶۲۲)
’’بلاشبہ تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں باہمی طور پر ایسے ہی محترم و مقدس ہیں جیسے یہ یومِ حج، ماہِ حج اور بلد حرام مکہ مکرمہ مقدس و محترم ہیں‘‘
ایک مسلمان کی جان اور اس کے مال کا احترام و اکرام مکہ مکرمہ، کعبۃ اللہ، یوم الحج ، عشرۂ ذی الحج اور ماہِ حج سے کسی درجہ کم نہیں۔ کون بدنصیب ہوگا جو کعبۃ اللہ کی حرمت کو پامال کرتا ہو…؟ کون ایسا شقی ہو گا جو ایامِ مقدسہ کی حرمت کو تارتار کرتا ہو…؟ کوئی نہیں! ہر گز نہیں! تو ایک دوسرے کی جان و مال کو ایسے ہی محترم جانو، نہ کسی کو بدنی ایذا پہنچاؤ اور نہ ہی مالی ایذا، نہ کسی کو مارو پیٹو، ظلم و ستم ڈھاؤ اور نہ ہی کسی کا مال ناحق طریقے سے غصب کرو، چوری کرو یا ہتھیا لو۔
سیرۃ ابن ہشام میں اس خطبہ کے آخر میں اس خوبصورت قانون کو مزید توضیح سے یوں پیش کیا گیا ہے: 
فلا یحل لامریٔ عن اخیہ الا ما اعطاہ عن طیب نفسہ فلا تظلمن انفسکم…
’’سو کسی مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی  سے خوش دلی سے لئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال لے۔ سو اپنے اوپر ظلم نہ کیا کرو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے جان، مال اور عزت کی حرمت سے متعلق مذکورہ بالا اعلان کے ساتھ متعدد روایات میں  اس قانون کی مزید اہمیت اُجاگر کرنے والے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں: 
وستلقون ربّکم فیسألکم عن اعمالکم، ألا فلا ترجعوا بعدی ضلالًا یضرب بعضکم رقاب بعض، ألا لیبلغ الشاہد الغائب… (صحیح بخاری: ۵۲۴۵، ۷۰۱۵)
اور تم عنقریب پنے رب سے جا ملو گے پھر وہ تم سے تمہارے اعمال سے متعلق سوال کرے گا، خبردار! میرے بعد گمراہی میں نہ لوٹ جانا کہ تمہارے بعض بعض کی گردنوں کو مارتے رہیں، آگاہ رہو! موجود غائب تک پہنچائے۔ 
یعنی اگر کوئی شخص کسی کی جان و مال یا عزت و آبرو سے کھیلے گا تو اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بہت جلد خالقِ کائنات کی عدالت میں پیشی ہونے والی ہے، جہاں جواب دہ ہونا پڑے گا اور وہاں سفارش کارگر ہے نہ ہی رشوت کے طور پر مال و فدیہ کام آئے گا اورنہ ہی زور و طاقت بچا سکے گی، اس لئے کسی کی جان سے کھیلنے اور مال ہڑپ کر جانے سے خوب خوب احتیاط برتو۔ 
ادائیگی امانت کی تاکید
ومن کانت عندہٗ امانۃٌ فلیؤدّہا الی من ائتمنہٗ علیہا۔ (مسند الامام احمد: ۲۱۶۷)
’’جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو وہ صاحب ِامانت کے سپرد کر دے‘‘۔ 
امانت کی ادائیگی و پاسداری کو ایمان کی نشانی اور امانت کے ضیاع اور خیانت کو حدیث پاک میں نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ امانت، مال اور سیم و زر، منصب و عہدہ ہو یا حکومت و اقتدار، علم و آگہی ہو یا دانش و فہم، راز ہو یا خفیہ دستاویز سبھی کا پاس رکھنا ضروری ہے۔ 
امانت کا پاس و لحاظ رکھے بغیر معاشرہ کبھی بھی سکون و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا، خیانت و بددیانتی استحصال اور سلبِ حقوق کا ذریعہ ہے، جس سے طبقات میں عداوتیں، دشمنیاں اور مخالفتیں جنم لیتی ہیں اور یہ عداوتیں قتل و غارت گری پر منتج ہوتی ہیں۔ 
جاہلانہ رسموں اور دشمنیوں کا خاتمہ
الا کل شیء من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع ودماء الجاہلیۃ موضوعۃ، وان اول دم اضع من دمائنا دم ابن ربیعۃ بن الحارث وکان مسترضعًا فی بنی سعد فقتلہ ہذیل…(صحیح مسلم :۲۱۲۹)
’’سن لو ! جاہلیت کے معاملہ کی ہر چیز میرے پاؤں کے نیچے روند دی گئی اور جاہلیت کے تمام خون (قتل) بھی ختم کر دیے گئے (بطور نمونہ کے) سب سے پہلے میں اپنے خونوں سے ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا خون ختم کر رہا ہوں، جو بنی سعد میں شیرخوار بچہ تھا اور اسے قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلانہ طور و طریق، رسوم و رواج کے خاتمہ کا نہایت ہی بلیغ انداز سے خاتمہ کا اعلان فرمایااور ان امورِ جاہلیت کو اپنے پاؤں کے نیچے روندنے کا اعلان فرمایا۔ 
زمانۂ جاہلیت کی
قومی، لسانی، علاقائی عصبیتیں و عداوتیں، مشرکانہ افعال و اعمال، جاہلانہ ضد و عناد، توہّم پرستی، اخلاق و حیاسوز تمدن الغرض سبھی جاہلانہ عادات و حرکات و سکنات کا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خاتمہ فرما دیا، بلکہ عملاً محبت و بھائی چارہ پر معاشرہ کی تعمیر فرما کر دشمنوں کو دوست بنایا اور آج آخر میں بطور خلاصہ و نصیحت و وصیت کے اپنے اس سابقہ پروگرام کو جامع انداز میں دلنشین کروا کر دوسروں تک یہ پیغام پہنچانے کا حکم جاری فرما دیا۔ 
قدیم رقابتیں اور پرانی دشمنیاں خاتمہ کے باوجود کبھی کبھار پھر سے زندہ ہو کر معاشرہ کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ جاہلیت کے ان قتلوں کو یکسر ختم فرما کر پہل کرتے ہوئے دوسرے مسلمانوں کو بطور نمونہ کے ربیعہ بن حارث کے بچے کے قتل و خون کے خاتمہ کا اعلان فرمایا۔ 
ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، ان کے بیٹے بنی سعد قبیلہ میں شیرخوار تھے،
بنی سعد اور بنی لیث قبیلہ کی باہمی جنگ میں اس بچہ کو پتھر لگا جس کی وجہ سے یہ بچہ فوت ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کے خون کے خاتمہ کا اعلان فرمایا، کیونکہ یہ سارا معاملہ زمانۂ جاہلیت کا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام خون ختم فرما دیے۔ 
زمانۂ جاہلیت کے سود کے خاتمہ کا اعلان
ورِبا الجاہلیۃ موضوع واوّل ربًا اضعّ من ربانا ربا عباس بن عبدالمطلب فانہ موضوع کلّہٗ… (صحیح مسلم:۲۱۲۹)
’’اور زمانۂ جاہلیت کے ہر قسم کے سود ختم کئے جاتے ہیں۔ میں سب سے پہلے خود (اپنے چچا) عباس بن عبدالمطلب کے سود کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ سارا سود ختم کیا جاتا ہے۔ 
سنن ترمذی اور سنن ابی داؤد میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے: 
ولکم رؤس اموالکم لا تَظْلِمُون ولا تُظْلَمُون۔ (سنن ترمذی: ۱۰۲۳، سنن ابی داوٗد : ۲۸۹۴)
’’تمہیں اصل سرمایہ ملے گا نہ تم کسی پہ ظلم ڈھاؤ نہ کوئی تم پہ ظلم کرے۔‘‘
معاشی نظام میں سود ہی وہ عنصر ہے جس کی وجہ سے دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں اور اکانومی پر چند خاندانوں یا کمپنیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے، اس معاشی تسلط کے نتیجے میں اشیاء کی مصنوعی قلت اور قیمتوں کی بہتات جنم لیتی ہے۔ قرضوں کے سود کی عدم ادائیگی کی وجہ سے لوگ اپنی جان اور اولاد تک کو فروخت کر دینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
اسی سودی نظام کا لازمی نتیجہ ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے سود کو حرام قرار دے دیا۔ سود کی حرمت کے ساتھ یہ اشکال ہو سکتا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں دیے گئے قرض کا سود تو وصول کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس وقت حرمتِ ربوٰا نازل نہیں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کا خاتمہ فرما دیا اور اعلان فرما دیا کہ جاہلیت کے جملہ سود ختم کیے جا رہے ہیں اور ابتدا اپنے خاندان سے فرمائی تاکہ سب کے لئے ایسا کرنا سہل و آسان ہو جائے۔ اور اعلان فرما دیا میں عباس بن عبدالمطلب کے سود کو ختم کرتا ہوں۔ 
حقوقِ نسواں
فاتقوا اللہ فی النساء ، فانکم اخذتموہن بأمان اللّٰہ،  واستحللتم فروجہن بکلمۃ اللّٰہ…  ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔ (صحیح مسلم: ۲۱۲۹)
’’ہاں عورتوں سے متعلق اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امانت کے ساتھ حاصل کیا ہے اور تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ حلال کیا ہے… اور تمہارے ذمہ لازم ہے کہ ان کے رزق و روزی اور لباس، پوشاک کا انتظام کرو۔‘‘
واستوصوا بالنساء خیرًا۔ فانما ہن عوان عندکم 
(سنن ترمذی: ۱۰۰۰، سنن ابن ماجہ: ۱۸۴۰)
اور مجھ سے عورتوں کے متعلق خیر کی وصیت قبول کرو، عورتیں تمہارے ہاں تمہاری مددگار ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات کو عرب کے معاشرے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو زندگی کا حق دیا، غلامی سے نجات دی، انسانی حقوق سے محروم اس صنف ِنازک کو باعزت و محترم بنایا، لوگوں کو خوفِ خدا دلا کر خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم سے منع کیا اور انہیں یہ حقیقت باور کرائی
کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم و کلمہ سے یہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں، گویا یہ تمہارا ملکیتی مال نہیں کہ تم ان سے باندیوں والا سلوک کرو یا انہیں اپنا مملوک جان کر ان میں تصرف کرو، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمہارے ہاں امانت ہیں سو ان کے بود و باش، رزق و طعام اور لباس و کپڑوں کا انتظام تمہارے ذمے ہے۔ 
اسلام نے عورت کو معیشت کی ذمہ دار اور کمانے کا مکلف نہیں بنایا اور اس ضعیف و نازک صنف کے بس میں ہی نہیں کہ وہ کماتی پھرے بلکہ ان کے تمام لوازمات مردوں کے ذمہ لگائے گئے ہیں۔ 
عورتوں کے ساتھ
حسنِ معاملہ کو آپؐ نے اپنی خیر کی وصیت قرار دے کر اسے قبول کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی ان کا مقام و مرتبہ بتلایا کہ یہ تمہاری عوان و مددگار ہیں۔ تمہارے گھروں کی تدبیر کرنے والی ہیں۔ ان کے بغیر تمہارے خاندان اور گھرانے سبھی نامکمل ہیں۔ وہ تمہارے بغیر ذمہ داریاں کیسے سرانجام دے سکتی ہیں۔ آخر میں حضور علیہ السلام نے باقی وصیتوں کے برعکس اس وصیت سے متعلق مزید تاکید پیدا کرنے کے لئے فرمایا: لوگو! میری بات سمجھو میں پیغام پہنچا کر اپنے فریضہ سے سبکدوش ہو رہا ہوں۔ 
خاوندوں کے حقوق
ولکم علیہن ان لا یوطئن فرشکم احدًا تکرہونہٗ، فان فعلن ذالک فاضربوہن ضربًا غیر مبرحٍ ،  (صحیح مسلم:۲۱۲۹)
’’اور تمہارا ان کے ذمہ یہ حق ہے کہ تمہارے بستر پر کسی کو نہ آنے دیں کہ یہ تمہارے لئے ناگوار ہے، اگر وہ ایسا کریں تو تمہیں ان کو سزا دینے کی اجازت ہے لیکن ایسی مار نہ ہو جو زخمی کر دے۔ 
وعلیہن ان لا یاتین بفاحشۃ مبینۃ فان فعلن فان اللّٰہ قد اذن لکم ان تہجروہن فی المضاجع وتضربوہن ضربًا غیر مبرحٍ۔ 
’’اور ان کے ذمہ ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب نہ ہوں، اگر وہ ارتکابِ فاحشہ کریں تو تم ان سے بستر الگ کرو اور انہیں بغیر زخمی کئے مار سکتے ہو۔‘‘ 
مسلم معاشرے میں جہاں عورتوں کے واضح حقوق دیے گئے ہیں وہاں انہیں مادر پدر آزاد اور آوارہ بننے سے بھی روکا گیا ہے، انہیں شوہر کی
عزت وآبرو اور جان و مال کے تحفظ کا پابند بنایا گیا ہے، انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی مکمل اطاعت کریں، اس کے جملہ مفادات کا تحفظ کریں اور خاوندوں کو اپنی بیویوں کی اصلاح کے طریقے بھی سمجھائے گئے، شدید جرم کی صورت میں خاوند اصلاحِ ازواج کیلئے ترکِ کلام، بستر کی علیحدگی اور پھر آخر میں مناسب سزا برائے اصلاح دے سکتے ہیں، لیکن وہ سزا ایسی نہ ہو جس سے عورت زخمی ہو جائے، اس کے باوجود عورت کو منہ پر مارنے سے منع کیا گیا، تشدد سے روکا گیا، بلاوجہ مارپیٹ پر سخت تنبیہ کی گئی۔ 
شیطان کو خوش کرنے سے اجتناب کرو
وان الشیطان قد أیس من أن یعبد فی بلادکم ہٰذہ أبدالکن ستکون لہٗ طاعۃ فیہا تحتقرون من اعمالکم فسیرضٰی بہٖ۔ (سنن ترمذی: ۱۴۸۷)
شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا کہ اب تمہاری سرزمین پر اس  کی پوجا کی جائے لیکن عنقریب اس کی اطاعت کی جائے گی، تمہارے ان کاموں کی صورت میں جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو، تو وہ اسی پر خوش ہو جائے گا۔
حضور علیہ السلام کی محنت ِتوحید کی برکت سے جزیرہ عرب میں ہمیشہ کے لئے شرک کا خاتمہ ہو چکا، آئندہ اس خطہ میں شرک کا شیوع نہ ہو گا، اس لئے شیطان کو بت پرستی سے تو مایوسی ہو چلی، وہ تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہوں پہ ہی خوش ہوتا ہے، لہٰذا شیطان کو خوش نہ کرو۔ چھوٹے بڑے سبھی گناہ ترک کر دو۔ جن گناہوں کو تم معمولی جانتے ہو، حقیقت میں وہ غیر معمولی نہیں اس لیے کہ گناہ تو ایک چنگاری ہے، چنگاری چھوٹی ہو یا بڑی بہرحال جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ 
کیلنڈر کی تصحیح
ان الزمان قد استدار کہیئتہٖ یوم خلق اللّٰہ السّمٰوات والارض، السَّنۃ اثنا عشر شہرًا، منہا اربعۃ حرم، ثلاث متوالیات، ذوالقعدہ و ذوالحجۃ والمحرم ورجب مضر، الذی بین جمادی وشعبان…(صحیح بخاری: ۷۰۱۵)
’’بلاشبہ زمانہ اپنی اس اصلی شکل پہ واپس آ چکا جس دن کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوںکو پیدا فرمایا اور سال  بارہ مہینے کا ہے، ان میں چار محترم ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور ایک  مضر کا رجب ہے جو جمادی اخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ 
ختم نبوت کا اعلان
اِنّہٗ لا نبی بعدی  ولا اُمّۃ بعدکم، الا فاعبدوا ربّکم وصلّوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وادّوا زکوٰۃ اموالکم طیّبۃ بہا انفسکم، وحجّوا بیت ربّکم، واطیعوا اولات امرکم تدخلوا جنّۃ ربّکم۔
 (کتاب السنۃ للألبانی: ۱۰۶۱)
’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، سنو! اپنے رب کی عبادت کرو، نماز پنج گانہ ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، اپنے پاکیزہ اموال کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے فقہاء و حکمرانوں کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔ 
قرآن و سنت کو تھامے رکھو
وقد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلّوا ابدًا، کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیّہٖ۔ (مستدرک حاکم: ۳۱۷)
’’اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوؤ گے ، وہ دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے۔‘‘ 
اسلامی اخوت اور اس کا تقاضا
ایہا الناس اسمعوا قولی واعقلوہ ، تعلمن أن کلّ مسلم اخٌ للمسلم، وان المسلمین اخوۃ، فلا یحلّ لامریٍٔ من اخیہ اِلَّا ما أعطاہ عن طیب نفس منہ، فلا تظلمن انفسکم، اللّٰہم ہل بلَّغتُ۔ (فقہ السیرۃ للالبانی:۴۵۴)
’’اے لوگو! میری بات سنو اور اسے سمجھو، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اور تمام مسلمان باہم بھائی، بھائی ہیں۔ سنو! کسی آدمی کے لئے اس کے بھائی کا مال صرف اس قدر حلال ہے جتنا وہ خوش دلی سے عطا کر دے ، سنو! ایک دوسرے پہ ظلم نہ کرو، اے اللہ! میں نے یہ پیغام پہنچادیا۔ 
میرے متعلق تم سے دریافت کیا جائے گا
وانتم تسئلون عنّی فما انتم قائلون؟ قالوا: نشہد انّک قد بلّغتَ وادّیت ونصحت۔ فقال باصبعہٖ السبابۃ یرفعہا الی السماء وینکتہا الی الناس ’’اللّٰہم اشہد‘‘ ثلاث مرّاتٍ…   (صحیح مسلم: ۲۱۲۹)
اور تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گا، تو تم کیا کہو گے؟ سبھی گویا ہوئے ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پہنچا دیا، امانت ادا فرما دی اور خیرخواہی فرما دی، تب آپ نے اپنی شہادت کی انگلی کو آسمان کی جانب بلند کرتے ہوئے لوگوں کی جانب حرکت دی اور تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں