صحت انسانی اور شافی السقم رب دو جہاں 231

لیکن ذرا احتیاط, ان جدت پسند ایجادات سے

لیکن ذرا احتیاط, ان جدت پسند ایجادات سے

نقاش نائطی
۔ +966504960485

ایک انوکھا اور منفرد سفید پینٹ ایجاد ہوا ہے جس سے گھر کی دیواروں کو رنگنے سے گھر میں باہر کی گرمی کا احساس بلکیہ ختم ہوتے ہوئے گھر میں ایرکنڈئشن استعمال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے
https://wp.me/pacC8F-ANS

جدت پسند تحقیق جتنی بھی نئی چیزیں ایجاد کیا کرتی ہیں اس سے وقتی فائیدہ ہوتا تو نظر آتا ہے لیکن دکھائی نہ دینے والے اس کے منفی اثرات سے انسان نت نئی اقسام کی بیماریوں کا شکار بن کر, اس سے زیادہ تکلیف اٹھانے لگتا ہے۔جیسے ہزاروں لاکھوں سال سے انسان گڑ کھاکر مزے سے جی رہا تھا۔ انگریزوں نے اسی گڑ کو مختلف انواع اقسام کے

خطرناک کیمیکل ملاپ سے ھیرے کی طرح چمکتی شکر بنا، دنیا والوں سے کیا متعارف کرایا کہ آج آدھی دنیا شروع میں خون و بول میں شکر کی زیادتی کا شکار بن، “مرض مرکب” ڈائیبٹیس کا مریض بن جاتے ہیں بلکہ اسی دائبٹیس مرض کی بدولت، ابتداء میں سماعت سے محروم ہوتے ہوتے، گردے تللی ناکارہ بنتے ہوئے، انیک دوسرے امراض شکار بنتے ہوئے، ہ
دنیوی اعتبار سے قبل از وقت آخرت سدھار جاتے ہیں

ابھی حال ہی میں پورے عالم کی انسانیت کو،اپنے اپنے گھروں میں مقید کررکھ دینے والے عجیب و غریب وبا کورونا کی ویکسین ایجاد کئے جانے سے قبل تک، عالم کے سائینس دانوں نے اسے، ملیریا، سارس، فلو اینفلواینڑا جیسے اسقام کی مروجہ دواؤں سے صحت یاب کرانے کے چکر میں، انہی مختلف مضر صحت ادویات کے اثرات مضر سے

، ایک نایاب سقم بلیک فنگس انسانوں میں عام کراتے کراتے، بھلے چنگے ہم انسانوں کی ایک کثیر تعداد کو جہاں آخرت سدھار دیا ہے وہیں اس بلیک فنگس کا شکار ہونے والے امراء کو ڈھیر ساری دولت خرچ کئے جانے کے باوجود، دنیا کے نظارات سے لطف اندوز ہوتی چشم کشا سے محروم، لاعلاج اندھوں کی حیثیت سے جینے پرمجبور کیا ہوا ہے

یہ انگریزی ادویات کیا ہیں؟ اور انسانی اجسام پر کیسے کام کرتی ہیں؟ بہت پہلے ہمارے لکھے ایک مضمون میں لکھے ان جملوں کو ہم یہاں دوبارہ نقل کئے دیتے ہیں۔تاکہ جدت پسند دنیا کے ہم متوالوں کو، ان جدت پسند ادویات کی شفایابی صلاحیتوں کے ساتھ ہی ساتھ، ان انگریزی ادویات کی تباہ کاریوں کا بھی ادراک بخوبی رہے
تین شکاری دوست اپنی لینڈ کروزر میں سیر سپاٹے کے لئے نکلے ہوئے تھے ۔ گاؤں سے باہر جنگل کے ایک پیڑ پر نت نئے

اقسام کے مختلف رنگوں والے ہزارہا طوطے بی فاختائیں اور دیگر اقسام کے پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ سر راہ گاڑی روک کر نت نئے اقسام کے پرندوں کو دیکھ کر وہ تینوں محظوظ ہورہے تھے۔ گویا وہ درخت مختلف رنگوں میں رنگا انتہائی خوبصورت لگ رہا تھا۔ لال پیلے ہرے رنگ کے مختلف طوطے تھے تو زرد مائل رنگ کی فاختائیں بھی تھیں ان میں کالی بھوری کوئیلین بھی تھیں ان کے درمیان بالکل سرخ رنگ کی سر پر تاج والی ایک ننھی چڑیا بھی بیٹھی تھی۔ ایک نے پوچھا کیا کوئی ایک ہی وار میں اس ننھی چڑیا کو مار سکتا ہے؟ ایک شکاری نے لیبڈ کروزر گاڑی میں رکھی اپنی مشین گن پر تفخرا” نظر ڈالتے ہوئے یہ کہا کہ “یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، میں ایک منٹ میں اس ننھی چڑیا کو ڈھیر کرسکتا ہوں”

پہلے والے نے پوچھا لیکن تمہاری مشین گن کی اگلتی ہوئی پچاس سو گولیوں سے اس کے آس پاس بیٹھی ہوئی بہت سارے دوسرے پرندے بھی بیکار میں مارے جائینگے نا؟ تو اس نے کہا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہمارا نصب العین تو ہمارے نشانے کو مار ختم کرنا ہوتا ہے۔

دوسرے شکاری نے کہا “میں تو اپنی ڈبل بیرل بندوق میں چھوٹے چھرے والے کارتوس کا استعمال کر اس ننھی چڑیا کو آسانی سے مار سکتا ہوں”*
*پہلےوالے نے کہا لیکن تیرے چھوٹے چھرے والے کارتوس میں موجود چھوٹی گولیوں سے کچھ اور پرندے بھی تو مرسکتے ہیں نا؟ اس پر اس کا جواب تھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے پمیں اپنا ھدف حاصل کرنے کے لئے، تھوڑا بہت تو نقصان برداشت کرنا ہی پڑتا ہے”

پہلے والے نے کہا “ضروری نہیں کچھ غیر ضروری نقصان کے ساتھ ہی اپنے ھدف کو پایا جائے۔ میرے پاس اعشاریہ 22 بور ایر گن ہے اس میں ایک ہی چھوٹا سا چھرا لگتا ہے۔میرا نشانہ اگر پکا ہے تو تو ان ہزاروں پرندوں کے جھرمٹ میں سے اس ننھی چڑیا کو میں آسانی سے مار گراسکتا ہوں اور سب سے ہم میرے دھماکے سے صرف میرے مطلوبہ نشانے والی چڑیا ہی گھائل ہوکر گرے گی اور اگر میرا نشانہ بالفرض محال خطا بھی ہوگیا تو اس ننھی چڑیا بشمول کسی اور پرندے کو کوئی نقصان بھی نہیں ہوگا۔

یہی ہوتا ہے ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں۔ انگریزی ادویات کی طرح نہیں ایک سقم سے چھٹکارہ پانے کی جستجو میں پتہ چلا ان انگریزی ادویات کے اثرات مضر سے، ہمارے جسمانی اندرونی اعضاء بری طرح متاثر ہوتے ہوئے، ہمیں نت نئے دوسرے امراض کا شکار بناجاتے ہیں۔ گاہے بگاہے ہر مرض کے لئے کھائے جانے والی تیز بھدف اینٹی بایوٹک ادویات سے وقتی افاقہ تو ملتا نظر آتا ہے لیکن مستقلا ان انگریزی ادویات کے کھانے والوں کے گردے تللی اپنے طور کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو موسمی امراض کے ساتھ ہی ساتھ مستقل

امراض جیسے فشار دم بلڈ پریشر، اسقام بواد یعنی گیسٹرائیٹس، اسقام قلب ، جگر، گردہ، تللی و آلات تنفس کے اسقام کے لئے، مستقلا کھائی جانی والی انگریزی ادویات کے ساتھ ہی ساتھ نہایت تجربہ کار ھومیو طبیب سے مشتقلا دوائی لیتے رہنی چاہئیے اور ھومیو ادویات سے افاقہ کے ساتھ ہی ساتھ بتدریج انگریزی ادویات چھوڑتی جانے چاہئیے۔بعض کم تجربہ کا یومیو طبیب انگریزی ادویات کے ساتھ ساتھ ھومیو ادویات دینے سے منع کرتے ہیں۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ ہاں اپنے مریضوں کو ھیومیو ادویات انگریزی ادویات کے ساتھ لینے کے بجائے کچھ توقف کے ساتھ لینے کا مشورہ دیا جائے تو بہتر ہے۔

فی زمانہ سائبر میڈیا کے ذریعہ سے جو خبریں ملتی ہیں۔اس رو سے عالمی سطح پربڑے بڑے پونجی پتیوں کی قائم انگرئزی ادویات کمپنیوں کی طرف سے انگریزی ادویات ڈاکٹروں کو مختلف مراعات دیتے پس منظر میں یہ پیشہ طب، ‘خدمت خلق’ سے زیادہ ‘خدمت حلق’، یعنی دھن بٹورنے کا ذریعہ بنتا جارہا ہے ایسے میں ایک مرض سے شفایابی کے چکر میں دوسرے متعدد امراض کا شکار بن اپنی گاڑھی کمائی کا ایک بہت بڑا حصہ ان انگریزی ڈاکٹروں اور ادویات پر لگانے سے اچھا ہے اللہ شافی پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے، مقامی طور دستیاب ہومیوپیتھی یونانی ایوروئدک یا نیچروپتھی اکیوپنکچر اکیوپریشر قدرتی طریقہ علاج ہی سے شفایابی کی جستجو ہونی چاہئیے

اور اگر موسمی امراض بخار سردی وغیرھم میں دوچار دن کے علاج معالجہ سے صحت یاب نہ ہوپائیں تو انگریزی ادویات کے ماہر سے رجوع ہوا جاسکتا ہے۔ عموما ہر اقسام کے موسمی امراض اسی سے نوے فیصد پہلے دوسرے دن کی ادویات ہی سے ٹھیک ہوجایا کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات جو ذہن میں رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ شافی اللہ ہی ہے وہ کسی کی بھی دوائی سے ہمیں شفایاب کرسکتا ہے اس لئے اللہ پر بھروسہ کے ساتھ ہی ساتھ طبیب و حکیم پر مکمل اعتماد کے ساتھ ہی ان سے دوائی لی جانی چاہئیے۔ بغیر اعتماد کے لی ہوئی دوا سے شفایابی نہیں ملا کرتی واللہ الاعلم بالتوفیق الا باللہ

سائینس دانوں نے ایک ایسا پینٹ ایجاد کیا ہے جس کے استعمال سے مستقبل میں ایرکنڈیشن کی ضرورت باقی نہیں رہے گی

اس مخصوص پینٹ سے گھر کی دیواروں ملون کرنے کے بعد گھر میں اے سی کی ضرورت نہیں رہے گی

جی ہاں واقعی ایک امریکی یونیورسٹی نے ایسا پیٹ تیار کیا ہے جو اے سی کی ‘ضرورت’ ختم کردے گا. پورڈیو یونیورسٹی کے انجنیئرز کا تیار کردہ یہ خاص سفید پینٹ 95.5 فیصد سورج کی روشنی منعکس کرکے سطح کو ارگرد کے ماحول کے مقابلے میں 19 ڈگری فارن ہائیٹ ٹھنڈا کردیتا ہے. یہ ایسی کامیابی ہے جو اب تک کسی کمرشل ہیٹ ریفلیکٹنگ وائٹ پینٹس میں حاصل نہیں کی جاسکی. محققین کی جانب سے اس پینٹ پر ہونے والے تحقیقی کام کے نتائج جریدے جرنل رپورٹس فزیکل سائنس میں جاری کیے گئے تھے.
محقین کا کہنا تھا کہ

آپ کو ایئرکنڈیشنر کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کیونکہ سورج کی روشنی چھت اور دیواروں کو گرم کردیتی ہے اور گھر کے اندر گرمی کا احساس بڑھ جاتا ہے. انہوں نے بتایا کہ یہ پینٹ ایئرکنڈیشنر کی ضرورت ختم کردے گا کیونکہ یہ سورج کی روشنی کو منعکس کرے گا اور گھر کے اندر حرارت کو کم کردے گا. اس پینٹ کی تیاری کئی سال کی محنت کا تنیجہ ہے جس کے لیے مختلف پینٹ فارمولیشن کو آزمایا گیا. تحقیقی ٹیم کے مطاب اس پینٹ میں کیشلئیم کاربونیٹ کو بنیادی جز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے.

تحقیقی ٹیم نے اس پینٹ کا موازنہ کمرشل وائٹ پینٹس سے انفراریڈ کیمرے کی مدد سے کیا. یہ پینٹ انفراریڈ تصویر میں جامنی رنگ کا نظر آتا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ سورج کی براہ راست روشنی میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے. تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ مستقبل میں یہ پینٹ گھروں، چھتوں، گاڑیوں اور شاہراؤں پر استعمال ہوگا جس سے عمارات میں بہت زیادہ توانائی استعمال کرنے ایئرکنڈیشنر کی طلب کم کرنے میں مدد ملے گی. تاہم اس پینٹ کو عام افراد تک پہنچنے میں ابھی کافی وقت درکار ہوگا اور تحقیقی ٹیم سے یہ بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ دیگر رنگوں میں بھی اس طرح کی ٹھنڈک کی خصوصیات موجود ہیں یا نہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں