صحت انسانی اور شافی السقم رب دو جہاں 147

اتفاق و محبت و مرکزیت ہی سے زمانے سے اپنا کام نکالا جاسکتا ہے

اتفاق و محبت و مرکزیت ہی سے زمانے سے اپنا کام نکالا جاسکتا ہے

نقاش نائطی
۔ +966504960485

اہل بھٹکل ما قبل آزادی ھند زمانے قدیم ہی سے 12 ربیع الاول کے وقت بڑے ہی دھوم دھام سے جلسے جلوس نیز ان ایام جامع مسجد، خلیفہ جامعہ مسجد، سلطانی مسجد، ملیہ مسجد، سمیت تمام اہم جگہوں پر شب کے وقت تو انجمن اسکول،انجمن کالج میں دن کے وقت سیرت کے جلسوں کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ پھر کچھ سال ایسی تقاریب کو لایعنی تصور کر، انکا انعقاد توقف پزیر رہا۔ لیکن اسی کے دہے،جب معلم بدرالحسن مرحوم علیہ الرحمہ نے بحیثیت ناظم مجلس اصلاح و تنظیم کی ذمہ داری سنبھالی تو سال تو یاد نہیں غالبا 1982 فی زمانہ جماعت المسلمین جامع

مسجد کے صدر المحترم عبدالرحمن جان کی کنوینئر شب میں کافی توقف کے بعد، بھارت میں بڑھتی مسلم مخالف منافرتی ماحول کے پیش نظر، پھر ایک مرتبہ شہر بھٹکل میں مجلس اصلاح و تنظیم ہی کی سرپرستی میں بڑے ہی زور و شور کے ساتھ عید میلاد کے جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا جانے لگا۔ یہ غالبا اسی کی یاد دلاتی تصویر ہے۔جس میں نظر آنے والےتین معزز چہرے جناب بڈئیے چڈوبھاؤ مرحوم ، ایس ایم یحیی صاحب مرحوم اور معلم بدرالحسن صاحب مرحوم نمایاں نظر آتے ہیں۔ آج تینوں حضرات ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن تینوں کی اپنے اپنے میدان کارساز میں نمائیاں خدمات قوم نائط کو کبھی بھلائی جانی ممکن نہیں ہیں

ہماری قوم نائط کا یہ وصف رہا ہے کہ ایسے پروگراموں کا اہتمام و انعقاد ہمیشہ باہم اتفاق سے مجلس اصلاح و تنظیم ہی کی سرپرستی میں صکاح و مشورے سے طہ کیا جاتا رہا پے۔ وقتی طور فیصلے صحیح ہوں یا تقاضائے وقت کےساتھ کچھ جذباتی، لیکن باہم اتفاق سے عوامی تائید کے ساتھ مرکزی سیاسی سماجی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم ہی کی سرپرستی کے تحت کئے جاتے رہنے کی وجہ سے، ہمیشہ اس کا خیر کا پہلو ہی سامنے آتا رہا ہے

اور شر کے پہلو سے اللہ رب العزت نے ہمیشہ قوم و ملت کو آمان میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن آج کل کچھ اہم و مقتدر لوگ ہی، دانستہ یا غیر دانستہ طور مجلس اصلاح و تنظیم کی مرکزیت کو دھچکا لگاتے دوسرے ذیلی اداروں کو سماجی رفاعی طور آگے بڑھاتے ہوئے، قوم و ملت میں ہمارے بزرگوں کی طرف سے قائم مجلس اصلاح و تنظیم کے وقار کو اور ھندو مسلم مشترکہ معاشرے میں کھڑے کئے گئے اسکے مقام متمئز کو مجروح کرتے پائے جاتے ہیں۔ خصوصا شروع میں کچھ لوگوں کی کاوشوں سے ذاتی طور شروع کئے گئے اجتماعی فطرہ نظام کو،

جو بعد میں کافی عرصے تک مجلس اصلاح و تنظیم ہی کی سرپرستی میں، آزاد فطرہ کمیٹی کی طرف سے جو کئی ٹن پر مشتمل رفاعی چاول تقسیم کا نظام معاشرے میں عام رائج تھا، اسے ہائی جیک کئےجانے کا معاملہ ہو، یا چند سخی حضرات کےتعاون سے، چند نوجوانوں کی شروع کی گئی قوم و ملت کو صاف پانی، مہیا کروانے کی تحریک ہو یا ابھی کچھ سالوں سے معرض وجود میں آئے، خلیج کونسل رابطہ آفس سرگرمیاں ہوں، کینرا کونسل یا مرکزی بین الجماعتی رفاعی ادارے کی طرف سے کچھ سالوں سے، انکے نام نامی سےشروع کئے جانے

والے رفاعی کام ہوں، سابقہ ڈیڑھ سال سے اس کورونا قہر کہرام تناظر میں مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے پیش کردہ راشن کٹ تقسیم ہو، حکومتی تعاون کے ساتھ کویڈ شفا خانوں کا اہتمام اور حکومتی اداروں کے ہزاروں کے مجمع میں تطعیم کورونا کےلئے اٹھائی جانے والی عوامی دشواریوں کے پیش نظر ملی ادراوں کی سرپرستی میں خلیجی تارکین وطن کے ساتھ ہی ساتھ عوامی کورونا تطعیم کا انعقاد اور اس ضمن میں ذمہ داران تنظیم و قوم کی

ان تھک کوششوں کے تناظر میں، مجلس اصلاح و تنظیم ہی کے کسی ذیلی ادارے کے نام نامی سے شروع کئے جانے والے، گورنمنٹ ہاسپیٹل کو مختلف اداروں کی طرف سے وقفہ وقفہ سے دئیے جانے والی امداد سمیت، تمام عوامی رفاعی خدمات پروجیکٹ انکے ادارتی نام نامی کے بجائے مجلس اصلاح و تنظیم کے نام نامی سے شروع کئے جاتے تو حکومتی انتخابی پس منظر میں، نہ صرف برادران وطن بلکہ برادران ملت سے رجوع ہونے ، مجلس اصلاح و تنظیم کو نہ صرف آسانی ہوتی بلکہ یہ رفاعی اقدامات مجلس اصلاح و تنظیم کے معاشرے کے تئیں

رفاعی خدمات کی صورت مشتہرکرتےہوئے، سوسالہ فلاحی سماجی سیاسی اقتصادی رفاعی کاموں والے، مجلس اصلاح و تنظیم کی افادیت کے لئے بھی ممد و مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔یہ اس لئے کہ وقت وقت کے ساتھ مختلف ادارے وجود میں آتے رہتے ہیں اور وقت کے بے رحم تھپیڑوں کی مار کھائے وقت کے ساتھ اپنا وجود کھوتے بھی رہتے ہیں۔خلیج کے بادبہاراں کے بل پر قائم مختلف ادارے بھی کل مستقبل میں معدوم ہوئے پائے جاسکتے ہیں

لیکن اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ہمارے قوم نائط کے اسلاف کے شروع کئے گئےسماجی اصلاحی آقتصادی سیاسی رہبری کے لئے بیسویں صدی کی ابتداء میں قائم مرکزی مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل ابھی کچھ سال قبل، نہ صرف اپنے وجود کے شاندار سو سال پورے کرچکا ہے بلکہ اپنے اولین صد سالہ پروگرام کو جس شان بے نیازی سے مرکزی وریاستی سطح کے مہمانوں کو وطن عزیز دعوت پربلاکر ذمہ داران قوم نے مشترکہ طور جس شاندار انداز صد سالہ پروگرام منایے تھے اس کے نقوش ابھی تک ہم فرزندان اہل نائط کے دل و دماغ سے محو نہیں ہو پائے ہیں

اس سمت ہماری تو یہ رائے ہے کہ نہ صرف مقامی طور سماجی اصلاحی سیاسی رفاعی امور کی انجام دہی صرف اور صرف مجلس اصلاح و تنظیم کے نام نامی سے ہونی چاہئیے بلکہ بھٹکل و اطراف بھٹکل مرڈیشور منکی ولکی سمسی شیرور بیندور گنگولی تونسے تمام اہل نائط کے علاقوں میں بھی، مجلس اصلاح وتنظیم کے نام نامی سے ان کے علاقہ کے اضافی نام کے ساتھ آزاد خود مختار ادارے قائم ہوں اور مختلف علاقوں میں قومی اصلاحی ملی رفاعی سیاسی مقاصد سے تمام پروجیکٹ صرف اور صرف ایک ہی نام مجلس اصلاح و تنظیم، بھٹکل یا مرڈیشور یا منکی،

سمسی، بیندور ،گنگولی نام کے ساتھ ہمہ وقت رفاعی کام انجام دہی کے اعتبار سے ،مجلس اصلاح و تنظیم ہی کا نام ہروزاخبار و نیوز میڈیا پر گونجے۔ تاکہ ہر انتخابات کے وقت ہمارے علاقے کے مسلم ووٹ، مجلس اصلاح و تنظیم کے مشترکہ باہمی فیصلے کے تحت یک طرفہ کسی بھی مسلم و غیر مسلم امیدوار کے حق میں پڑتے ہوئے،اسے جیت سے ہمکنار کرتے ہوئے، مستقبل میں قوم و ملی افادیت کے نقطہ نظر سے،حکومتی سطح پر گفت و شنید سے قوم نائط کے لئے ترقیاتی منصوبے حکومت سے منظور کروانے، ہمارا اتحاد ممد و مددگار ثابت ہو،اور

ہم مختلف پارٹیوں کے حکومتی سطح منتخب مختلف لیڈران سے بہتر انداز گفت و شنید و انکے ذریعہ سے حکومت سے کچھ حاصل کرنے میں بارگین کرنے کی بہتر پوزیش میں ہوسکتے ہیں شرپسند عناصر کو تنظیم کے مشورے و فیصلے سے علاقے کے تیس چالیس ہزار، تقریبا 90% علاقے کے مسلم ووٹ کا یک طرفہ کسی بھی تنظیم تائید کردہ امیدوار کی جھولی میں گرنا، ہمیشہ سے تفکر کا سبب رہا ہے۔اور اکثر تنظیم کے تائید کردہ امیدوار ہر انتخاب میں جیت حاصل کرتے رہے ہیں۔اسلئے شرپسند سیاسی پارٹیاں ہمارے ملی مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے؛ جستجو میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہی ہیں ایسے میں فلاحی سماجی سیاسی مرکزی ادارے

کو،کسی بھی بہانےکمزور کرنے کی ہماری کوششیں، خود ہمارے پیروں پر خود سے کلھاڑی مارنے کے مترادف عمل ہے۔امید ہے ارباب قوم و ملت اس سمت سوچتے ہوئے ہمارے مرکزی فلاحی سماجی سیاسی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کو اسی طرح مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتے پائے جائینگے۔ اور کرناٹک و بھارت کے مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمان بھی بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم جیسے اپنے اپنے علاقے کے قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لئے ایسے مرکزی ادارے کا قیام کرتے ہوئے ،بکھرے ہوئے مسلم شیرازے کو اجتماعی قوت میں بدلنے کی کوشش کرتے پائے جائیں گے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

مقامی طور ہونے والی حکومتی بلدیاتی پنچایتی صوبائی یا مرکزی انتخابی مہمات میں، اغیار کے پاس مجلس اصلاح و تنظیم کے تائید کردہ فیصلوں کے نفاذ ہی کی خاطر نہ صرف برادران وطن میں بلکہ باہر سے روزگار کی تلاش میں بھٹکل آکر رچ بس گئے برادران ملت سے رجوع کرنے اور انہیں تنظیم کے حمایتی امیدوار کے حق میں،اپنے حق رائے دہی کے اختیار کرتے وقت، معاشرے میں مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے سال بھر کئے جانے والے ایسے عوامی رفاعی کام ہی درشائے اور دکھائے جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں