ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتی سیاست! 220

داستانِ عمرِ رواں

داستانِ عمرِ رواں

تحریر:شاہد ندیم احمد
ہر انسان کی زندگی بہت سے واقعات وتجربات سے بھری ہوتی ہے ،لیکن ایک عام آدمی کی نسبت ایک کامیاب آدمی کی زندگی کے واقعات وتجربات دوسروں کیلئے مشعلے راہ بنتے ہیں،ڈاکٹر فریداحمدپراچہ کا شمار بھی ایسے ہی کا میاب لوگوں میں ہوتا ہے

کہ جنہوں نے کسی سہارے کے بغیر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابی کے تمام زینے طے کرتے ہوئے اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے،اُن کی ساری زندگی مذہبی وسیاسی جدوجہد سے عبارت ہے ، وہ ایک دیانتدار سیاست دان اور خوبصورت لکھاری کی حیثیت سے ہر خاص وعام میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں، اُن کی اخبارات وجرائد اور کتب میں بکھری تحریروں کی ایک الگ سی مہک ہے جو قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے دل موہ لیتی ہے۔
ڈاکٹر فریداحمدپراچہ اپنی منفرد تحریری صلاحیت سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں ، انہوں نے اپنی مختلف موضوعات پر تحریروں کو پندرہ کتابوں میں منتقل کیا ہے،تاہم ایک خود نوشت کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی جو اُن کی عمررواں نے پوری کردی ہے ، مجھے قلم فاؤنڈیشن کے عبدالستار عاصم کی معرفت اُن کی دلچسپ خود نوشت ’

’عمرِ رواں‘‘ پڑھنے کا موقع ملا،ڈاکٹر فریداحمدپراچہ نے اپنی داستان عمررواں میں بہت سے واقعات بیان کرنے کے ساتھ ایسے حقائق سے بھی پردہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے کہ جن کے بارے میں عوام جاننا چاہتے ہیں، مگر اُنہیں تصویر کا دوسر ا ہی رخ دکھا جاتا ہے، ڈاکٹر فریداحمدپراچہ نے اپنی عمررواں میں نہ صرف اصل تصویر دکھائی ہے ،بلکہ اپنی قلم سے عوام کے جذبات و احساسات کوبڑے ہی خوبصورت انداز سے ٹٹولنے میں بھی کو ئی کوتاہی نہیں کی ہے۔
ڈاکٹر فریداحمدپراچہ کی عمررواں یاددشتوں کا ایک دلکش مجموعہ ہے ،اس میں جہاں انہوں نے اپنے خاندانی پس منظر،بچپن، گھر کے ماحول، والدین کی تربیت اور تعلیم کا احوال تفصیل سے بیان کیا ہے ،وہیںپنجاب یونیورسٹی کی سیاست کے بعد اُن کو زندگی میںکیا مراحل و مسائل پیش آئے اورانہوں نے کاروبارسیاست کے ساتھ ازدواجی زندگی کو کس طرح کامیابی سے نبھایا،سیاسی سفر میں کتنی قیدیں کاٹیں اور بعض تاریخی نوعیت کے واقعات میں اُن کا کیا کردار

رہا،یہ سب کچھ پڑھتے ہوئے بہت حیران کُن دکھائی دیتا ہے ، کیو نکہ اس میں بھٹو دور، جنرل ضیا کا مارشل لائ، جہاد افغانستان، آئی جے آئی کی تشکیل اور جماعت اسلامی کی علیحدگی، واجپائی کی پاکستان آمد، مشرف دور آمریت، عدلیہ بحالی تحریک کی جو تصویر دکھائی دیتی ہے، وہ اس سے بہت مختلف ہے، جو کہ عام طور پر عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔
یہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی دلیرانہ صفت کا ہی کمال ہے کہ اپنی داستان عمررواںمیں اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ قومی و ملی زندگی کے بھی کئی ایسے خفیہ گوشے قاری کے سامنے لا نے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی کہ جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کئی

بار سوچنا پڑتا ہے ،تاکہ اس کا مطالعہ کرکے ہم مستقبل میں ایسی کوتاہیوں اور لغزشوں سے بچ سکیں جو کہ ماضی میں سرزد ہوتی رہی ہیں،انہوں نے بحیثیت نائب امیر جماعت اسلامی داستان عمر رواںکے ا وراق پلٹتے ہوئے کہیں جماعتی تعصب برتا نہ ہی کسی مقام پر مصلحت کا شکار نظر آئے ہیں ،کیو نکہ مصلحت کا شکار ہونے والوںکو جھوٹ بولنا پڑتاہے ، جبکہ فرید احمد پراچہ نے پاکستان کی سیاسی تاریخ بیان کرتے ہوئے اپنے قلم کو جھوٹ سے آلودہ نہیں ہونے دیا ہے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی عمررواں کا مطالعہ کرتے ہوئے بخوبی احساس ہوتا ہے کہ آج بھی سچائی وحقائق پر مبنی تحریریں نہ صرف اپنا اثر رکھتی ہیں ،بلکہ قاری کو اپنے سحر میںلے کر بار بار پڑھنے پر مجبور بھی کرتی ہیں ، عمررواں حقائق پر مبنی داستانوں کی تاریخ میںگراں قدرخو بصورت اضافہ ہے ،تاہم اس عمررواںکے

ادھورے پن نے اپنے قارین کی تشنگی کو مذید بڑھا دیا ہے ،اُمید ہے کہ قارین کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے مذید ایڈیشن لائے جائیں گے ،تاکہ اس کے مطالعے سے جہاں تاریخ ساز واقعات سے آگاہی حاصل کر نے کی تشنگی کم ہو سکے گی ،وہاں ایک عام آدمی کیلئے کامیاب زندگی گزارنے کا ہنر سیکھنے میں بھی آ سانی ہوگی ۔ْ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں