ہم اورہمارے مسیحا 185

ہم اورہمارے مسیحا

ہم اورہمارے مسیحا

تحریر : محمد آصف کھنڈ

شعبہ میڈیکل ایک مقدس پیشہ تصور کیا جاتا تھا بلکہ تھا بھی لیکن جب تک ایک ڈاکٹر لالچ حوس اور مفاد پرستی سے دور تھا۔جب سے انسانی ہمدردی کوچ کر گئی ہے تب سے صرف بڑا بنگلہ مہنگی گاڑی اور بنک بیلنس بڑھانے کی ضرورت انسانیت کا گلہ ہی گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔اوپر پھر نئی سے نئی دوا ساز کمپنیوں نے ڈاکٹرز کا دماغ خراب کر رکھا ہے۔ان کمپنیوں کی تمام اچھی بری دوا سیل ہونی چاہیے ۔ان کی میڈیسن فروخت کرنے پر ڈاکٹرز صاحبان کو بیرون ملک کے وزٹ ویزے، مہنگی گاڑیاں سمیت بہت سے تحفے تحائف دینا شروع کر دیئے ہیں تب سے ان ڈاکٹر صاحبان نے ناصرف اپنی فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کیا بلکہ ان میں وہ احساس بھی دم توڑ گیا جو کبھی ایک ڈاکٹر یا طبیب میں ہوا کرتا تھا۔شعبہ میڈیکل کو اب صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ ہی بنا لیا گیا ہے چند ڈاکٹر صاحبان ہیں اب بھی ایسے جن کو خوف خدا ہے ورنہ باقی تو ڈاکٹرز کے روپ میں جلاد نظر آتے ہیں چند روز قبل
حسن ابدال میں پیش آنے والے واقع نے ہر انسانی درد رکھنے والے مرد و عورت کے احساسات کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔حسن ابدال کے رہائشی محمد نوید کے بیٹے محمد ابراہیم کے پیٹ میں درد ہوا تو محمد نوید اپنے لخت جگر محمد ابراہیم کی (POF) ہسپتال سے میڈیسن لینے کی غرض سے گئے تو پی ایف او ڈاکٹر طاہر محمود نے بچے کو ایڈمٹ کر کے اپنے ہسپتال میں نا اہل سٹوڈنٹس پریکٹس میڈیکل کالج کے طلباء کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا بچے کو جو وینٹی لیٹر لگایا وہ بھی خراب تھا دوسرا لگایا وہ بھی خراب نکلا ورثاء کے مطابق بچے کو جب چیک اپ کرتے تو اذیتیں دیتے اور نیند کا انجکشن لگا کر چلے جاتے اور کہتے آپکا بچہ اب ٹھیک ہے پی او ایف سٹوڈنٹس ٹیم اور ڈاکٹر طاہر محمود نے ظلم کی انتہاء کر دی ڈاکٹر طاہر محمود اور ٹریننگ سٹوڈنٹس ٹیم کی لاپرواہی کی وجہ سے محمد نوید کے اکلوتے معصوم سات سالہ بچے کی ڈیتھ ہو گئی ڈاکٹر طاہر کی نا اہل ٹیم کو نا تو بچے کی مرض کی صحیح تشخیص ہوئی اور نا ہی پراپر علاج ہوا تجرباتی بنیادوں پر کئے گئے

اس علاج نے معصوم بچے کی جان لے لی انجکشن کے ذریعے دی گئی تمام ادویات اتنی ہیوی مقدار میں تھیں کہ بچے کا اندرونی حصہ مکمل طور پر جل گیا 21جولائی کو بچہ بے جان ہو گیا اور 23جولائی کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ لواحقین کے حوالے کر دیا گیا چار سے پانچ دن بچہ ہسپتال داخل رہا لیکن اس دورانیہ میں سینیر ڈاکٹر طاہر نے بھی کوئی دلچسپی نہ لی سب کے سب تجربات جو بچے پر کئے گئے وہ ہاؤس جاب میڈیکل طلباء نے کئے جو گاہے بگاہے بدلتے رہے جہاں تک کہ والدین کو بچے کی ٹیسٹ رپورٹس بھی نہیں دی گئی جب رپورٹس مانگی گئی تو کہنے لگے

کہ ہمیں رپورٹس دینے کی اجازت نہیں ہے پیٹ درد کی بنیاد پر لایا گیا ننھا معصوم ابراہیم ان جلاد نما ڈاکٹرز کے ہاتھوں جانبر نہ ہو سکا لواحقین کی عید کی خوشیاں بھی ماتم میں تبدیل ہو گئیں اور اپنے لخت جگر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھے لواحقین نے اعلیٰ حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے جلاد نما ڈاکٹر طاہر محمود سمیت دیگر درندوں اور ان کی زیر نگرانی ہاؤس جاب کرنے والے میڈیکل کالج کے طلباء کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں