صحت انسانی اور شافی السقم رب دو جہاں
نقاش نائطی
۔ +966504960485
کویڈ پینڈیمک وبا کا سچ ایک نہ ایک دن تو سامنے آنا ہی تھا
تفصیل مضمون فیس بک پر
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1266212317147081&id=100012749744841
مشہور ہومیوپیتھک معالج ڈاکٹر عبداللہ بافقیہ
https://youtu.be/JV-pRavrqQc
شہر بھٹکل کے مانے ہوئے، ہومیوپیتھک یونانی حکیم جن کی پیران حالی میں بھی خلیج کے صحراؤں میں مستقل سکونت پذیر ہم جیسے تارکین وطن، مستقل بیماریوں سے شفایابی کے لئے، وطن اپنے گھروالوں کو انکے پاس بھیج کر، وہاں سے یہاں دوائیں منگوا استعمال کیا کرتے ہیں۔
ایک انٹرویو دوران ان کا کہنا ہے عام طور پر معاشرے میں پائے جانے والے تین چوتھائی امراض یا تو موسمی ہوتے ہیں یا وبائی، اور ان دونوں شکلوں کے امراض سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا آسان اور گھریلو علاج کچے پیاز کو چبا کر کھانا ہے۔ جو آدمی روزانہ کھانے کے ساتھ کچا پیاز چبا کر کھانے کا عادی ہو اسے نہ تو کوئی موسمی امراض نہ وبائی امراض ہوسکتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے ہر کھانے کے ساتھ کچا پیاز چباکر کھانے کا رواج عام تھا آج بھی ھند و پاک کے دیہاتیوں اور خلیج کے صحراؤں میں کھانے کے ساتھ کچا پیاز چبا کھانے کا رواج عام ہے اور جو کوئی ہر کھانے ساتھ کچا پیاز چباکر کھاتا ہے اسے کسی بھی قسم کا موسمی یا وبائی مرض انشاءاللہ نہیں ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا
انسان شریعت کے بتائے اوصول ایک تہائی پیٹ ثقیل غذائیں تو ایک تہائی پیٹ پانی یا فروٹ جوز وغیرہ پر مشتمل کوئی مشروب اور ایک تہائی پیٹ خالی رکھتے ہوئے، اور ہزاروں سال سے چلتے آئے اوصول کے تحت، طلوع آفتاب سے صبح 9 بجے سےقبل اچھا ناشتہ کرلے اور دوپہر سورج ڈھلنے کے بعد ایک آدھ گھنٹہ کے اندر دوپہر کا کھانا سیرہوکر کھالےاور شام غروب آفتاب کے ایک آدھ گھنٹہ کے اندر، رات کا کھانا ہلکا پھلکا کھالے اور یہ تینوں کھانے کھاتے وقت منھ میں ڈالا لقمہ خوب چبا چبا کر نگل لےتو، یقینا حضرت انسان کبھی بھی کسی بیماری کا شکار نہیں بن سکتا ہے
آج کی میڈیکل سائینس بھی اس بات پر متفق ہے کہ ایک طرف حد سے زیادہ کھانے سے اور خصوصا رات گئے دیر سے پیٹ بھر کھانا کھا کر سوجانے سے، انسانی جسم متعدد بیماریوں کی آماہ جگا بن جایا کرتی ہےبدلتے موسم کے ساتھ ہونے والے امراض ہوں یا وبائی امراض ہر قسم کے امراض سے بچاؤ کے لئے قدرت نے ہمارے جسم کےاندر ہی امراض سے بچاؤ کے لئے قوت مدافعت رکھی ہوئی ہے جو موسمی یا وبائی امراض کا علاج خود بخود مالک و خالق کائیناتے حکم سے شفا یاب کرنےکی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آج سے پچاس پچھتر سال قبل جب معاشرے میں ڈاکٹر نہیں پائے جاتے تھے تو انسانیت بغیر ڈاکٹروں کے کیا زندہ یا صحت مند نہیں رہتی تھی؟ جب سے معاشرے میں ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے، اس وقت سے معاشرے میں نت نئے اقسام کے سقم نے جنم لینا شروع کیا ہے۔
عالم میں امراض سے انسانیت کو نجات دلانے کے لئے، وقت وقت سے کئی طریقہ علاج متعارف ہوتے رہے ہیں جیسے ایوروید، یونانی، ہومیوپیتھی، ایلوپیتھی، نیچروپیتھی،اکیوپنکچر، اکیوپریشر اور پتہ نہیں کتنے سارے لیکن ان تمام طریقہ علاج میں سب سے تیز بھدف طریقہ علاج ایلوپیتھک جتنا نظر آتا ہے، اتنا ہی یہ انسانی جسم کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایلوپیتھک ادویات سے عمومامرض کو شفایاب کرنے کے بہانے، جسم کے اندر ہی اسے دبایا جاتا ہے جس سے وقتی فائیدہ تو ہوتا ہے لیکن بعد کے دنوں میں،مضر صحت اسقام جنم لیتے ہیں۔ہر انگریزی دوائی پر لکھا ہوتا ہے کہ بغیر مستند ڈاکٹر کی صلاح کے، اسے استعمال نہ کیا جائے، اس کا مطلب صاف ہے اس مرکب ایلوپیتھک دوائی میں دوسرے نقصان دہ اجزاء بہت پائے جاتے ہیں جو سب انسانوں کے مزاج کے اعتبار سےراس نہیں آیا کرتے اور اس کے سائیڈ ایفیکٹ کے طور دوسرے امراض وجود میں آیا کرتے ہیں۔
جدت پسند تحقیق نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ایلوپیتھک دواساز انڈسٹری ایک منظم سازش کے تحت شفایابی کے بہانے انسانیت کو اور انیک امراض کا دانستا” شکار بنایا کرتی ہے تاکہ دوا ساز کمپنی کی تجارت چلتی رہے۔اسی لئے تو یہ انگریزی ادویات کمپنیاں، اپنی تجارت کی ترقی کے لئے، نصف سے زائد اپنا فائیدہ یا تو ڈاکٹروں ہاسپیٹل یا دوائی بیچنے والی دوکانوں کو یا اشتہاری کمپنیوں کو دیا کرتی ہے تاکہ ان کی تیار کی ہوئی ادویات کو زیادہ سےزیادہ لینے پرانسانیت کو مجبور کیا جاسکے اور انہیں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتاکہ اس سے انسانیت متاثر ہوتی ہے یا نہیں، بلکہ ان انگریزی ادویات کے کھانے سے انسانیت تڑپ تڑپ کر تل تل مر جایا کرتی ہے
سردرد دراصل کوئی بیماری نہیں بلکہ جسم کےاندر وقع پزیردوسرے امراض سے حضرت انسان کو متنبہ کرنے کا قدرت کا نظام ہوا کرتا ہے۔ پہلے زمانے میں سردرد ہونے پر گھر کی بڑھی بوڑھیاں پوچھا کرتی تھیں کہ سرکے اگلے حصے میں درد ہے یا درمیانی یا پچھلے حصے میں؟ اس سےوہ سمجھ جایاکرتی تھیں کی اصل مرض کیا ہے۔ عموما سر کے اگلے حصے میں ہونے والادرد، سرد مزاج کو جہاں درشاتا ہے وہیں بعض درد گرم مزاج یا معدے کی خرابی ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے اسی اعتبار سے جڑی بوٹی پھتر پر گھس کر اسے پلائی جاتی تھی اور نہ صرف درد سر کا افاقہ ہوتا ہے
بلکہ جسم کے اندرونی سقم سے بھی نجات ملتی تھی۔ اب ہر سر درد کے لئے پیرا سیٹمول پر مشتمل پینا ڈول، ہر کسی کے لئے ہر جگہ دستیاب ہوچکی ہے کہ ذرا سردرد بدن درد ہوا کہ پیناڈول سےوقتی راحت حاصل کی جاتی ہے۔اس سے بے خبر کہ یہی درد سے نجات دلانے والی انگریزی ادویات، ہم آپ کے جسم کو انیک بیماریوں سے آمان رکھنے والے، تللی گردے کو، اپنے قدرت کے عطا کئے مختلف امراض سے انسانیت کو شفایابی کے عمل سے ابتدا” مانع رکھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ تللی گردوں کو ہی ناکارہ بنادیتی ہیں۔
موسمی سردی بخار زکام کے لئے،وقفے وقفے سے نیم گرم پانی یا ادرگ ابالا نیم گرم پانی پیتے ہوئے، لحاف اوڑھ تھوڑی دیر سونے سے، بدن سے پسینہ نکل بخار سے بچنے کا عندیہ دیا کرتا ہے۔ دادی اماں کے یہ نسخے بھی عجیب ہوا کرتے تھے کہ سرد موسم میں ابلا انڈہ کڑی، گوشت مچھلی جیسی ثقیل غذائیں کھانے میں تیار کرنا یا کروانا تو گرم موسم میں،مونگ کچھڑا یا تازہ سبزیوں پرمشتمل ساگ یا دھی پانی سے چاول کھانا کھلاکر اپنے بچوں کو موسمی امراض سے بچایا جاتا تھا۔ اصلی گھی، یا پھتر سیل پر قدرتا” نکالا ہوا ناریل یا سرسوں یا زیتوں کا تیل ہی استعمال ہوتا تھا۔ نصف صد قبل تک، صحت مند کہے جانے والے مگر مضر صحت ریفائیند تیل سے معاشرہ واقف بھی نہ تھا۔غریب ہوں کہ مالدار کم زیادہ اصلی گھی یا ان قدرتی تیل ہی کا استعمال کرتے تھے۔
اور آج بھی، دولت مندوں کوچاق و چوبندتندرست صحت مند رکھنےکادعوہ کرنے والے، عصری ترقی یافتہ، جدت پسند، ڈائیٹیشین یا ڈائیٹ ڈاکٹر،اپنے امیرمریضوں کو ان مختلف اقسام کے ریفائینڈ تیل اور صاف وشفاف سفید شکر سے اجتناب کرنے اور صرف اصلی گھی یا زیت زیتوں، ناریل یا سرسوں کا خالص تیل اور گڑ یا اسکے جدت پسند نام براؤن شوکر کھانے کا مشورہ دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ان عالمی یہود و نصاری والی دواساز کمپنیوں نے، انسانی صحت کو تندرست رکھنے کے نام پر، وقت بے وقت کے اشتہارات سے انسانیت کوان نقصان دہ ریفائینڈ تیل و چمکتی سفید شکر کا عادی بنایا اور ان ریفائینڈ تیل و شکر کے مضر اثرات سےجسم کے اندر رونما ہونے والی مختلف بیماریوں سے شفایابی کے نام پر وقتی راحت دیتے ہوئے
مزید اور اسقام میں ہم آپ کو جکڑتے ہوئے، ہم سے پیسے لوٹے جاتے رہےابھی حال ہی میں پورے عالم کو اپنی چپیٹ میں لینے والےاس سقم کورونا کے بارے میں متضاد خبروں نے، اچھے اچھوں کے حواس باختہ کئے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ عام سا ہونے والا فلو انفلوینزا مرض ہی ہے جس کے جرثومے میں عالمی مختبرگاہوں (لیباریٹریس) میں، متعدی مرض ملیریا اور ثم قاتل مرض ھیپی ٹائیٹس کے جرثوموں کے خواص کوشامل کر،اسے متعدی، مہلک تر سقم میں تبدیل کیا گیا ایک مرض کویڈ 19 یاکورونا ہے۔اس پرمتعددمضامین میں ہم اپنی بات کہہ چکے ہیں۔ اصل میں عالمی دوا ساز کمپنیوں کا ایک کھیل جہاں کہا جاتا ہے، وہیں پر عالم کی معشیت کو اپنے کنٹرول میں کئے رکھنے والے یہود ونصاری پر مشتمل انجانی قوت انکےزیراثر اقوام متحدہ اور ادارہ صحت عالم کو استعمال کرتے ہوئے،یہ سقم کورونا کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
اسکے ثبوت کے طور عالمی ادارہ صحت کے جاری کردہ کورنا، کس کس وقفہ سے، کون کون حیئت اختیار کرتے ہوئے، عالم میں تباہی مچا سکتا ہے اس کی یہ تفصیل مندرجہ ذیل دی جارہی ہے
شروع میں اس کروانا مرض کو کویڈ19 کا نام دیا گیا پھر فیس ٹو، اور فیس تھری کہہ کر پکارا جانے لگا اور اب کورونا شروع ہونے کے ڈیڑھ سال بعد کورونا وائرس مستقبل میں کس کس ہئیت تبدیل کرتے ہوئے مستقبل کے مزید ڈیڑھ سال عالم کی انسانیت کو کس کس طرح کون کون سے مہینے میں کس کس انداز پریشان کرتا رہیگا، یہ جان ہاپکن یونیورسٹی امریکہ،جو دراصل ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے اس نے اپنی لیباریٹری میں کورونا جرثومے سے باقاعدہ انٹرویو لئے جیسا کہ بھیا جرثومہ صاحب اب مستقبل کون کونسی شکل یا ہئیت اختیار کر عالم کی انسانیت کو ستائیں گے؟
گویا باقاعدہ تحقیق کرکے آئیندہ ایک سال کے دوران کس کس شکل میں کورونا تبدیل ہوتا رہیگا ہر شکل یا ہر ہئیت کا نام رکھ کر ہم عالم کے، بے وقوف انسانوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے یہ بالکل ویسی ہی کوشش ہے جیسے، زمانہ قدیم چالیس ایک سال قبل جب گاؤں میں میلا لگتا تھا تو ایک شخص ٹیبل پر پڑے ڈبے پر کالا کپڑا ڈالے جو اندر کی حقیقت دیکھنا چاہے، لائن لگائے یکے بعد دیگرے کالے کپڑے کے اندر اپنے منڈی ڈالے، دوڑتے کچھ مناظر کےساتھ بیگراؤنڈصوتی طور، عجیب و غریب چیزیں بتانےپر،یقین کرتا گھر چلا جاتا ہے ان یہود و نصاری سازش کنندوں نے کچھ امریکی یادیگرممالک کےسائینس دانوں کو آگے کرتے ہوئے، عالم کی ہم 700 کروڑ انسانیت کو بے وقوف سمجھ کر، جو کچھ ہمیں بتایا جارہا ہے ہم اسے ہی سچ ماننے پر مجبور ہیں گویا
بقول انکے 2021 جون مہینے میں کورونا وائرس ڈیلٹا نام سے عالم میں تباہی مچائے گی اور جولائی میں ایپسیٹون نام سے، انکے کہے مطابق ہوتا دنیا نے دیکھ لیا یے۔ اب اگست کے مہینے میں زیٹا نام سے تو ستمبر میں ایٹا نام سے، اکتوبر میں تھیٹا نام سے تو نومبر میں لوٹا اور دسمبر 21 میں کپپا نام سے تباہی مچاسکتے ہیں، اسی طرح سے جنوری 2022 لمبڈا، فروری موں، مارچ نوں،اپریل کیسی، مئی اونیکرون،جون پی، جولائی رھو،اگست سگما، ستمبر تن، اکتوبر اوپسیلون، نومبر پھی، دسمبر 2022 چی، جنوری 2023پیسی اور فروری 2023اومیگا،ان سائینس دانوں کے دئیے نام کے ساتھ حضرت کورونا وائرس بابا، عالم پر اپنی تباہی سے انسانیت کو پریشان کیا کریں گے
اب کینڈا کےایک شہری کے اپنے ملک کی عدالت میں کویڈ 19 پینڈیمک کے خلاف گوہاڑ لگاتے ہوئے انصاف طلب کیا تھا اب کینڈین کورٹ کی طرف سے کویڈ 19 کو ایک متعدی وبا کے بجائے عام سا فلو انفلوینزا قرار دئیے جانے کے بعد تو ہم اپنے قارئین سے یہ التماس کریں گے کہ وہ اپنے خالق و مالک اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس کویڈ 19 سے ڈرنا چھوڑ دیں اور حفظ ماتقدم کے طور صبح نہار منھ ایک انڈے کے سائز برابر تازہ پیاز چھیل کر دانتوں سے کاٹ کاٹ کر کھانے کی عادت ڈالیں اور دونوں وقت کے کھانوں کے ساتھ بھی تازہ پیاز کھانے کو ترجیح دیں اور رات گئے دیر تک پیٹ بھر کھانا کھانے سے پرہیز کریں انشاءاللہ ہم آپ یقینا نہ صرف کورونا بلکہ اور اقسام کی وبا سے بھی محفوظ رہیں گے۔انشاءاللہ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ