208

آہ و فغاں

آہ و فغاں

تحریر : صباء ناصر
سیکریٹری جنرل
آواز خلق فاؤنڈیشن
پچھلے دنوں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے تین انتہائی دلخراش اور دردناک واقعات رونما ہوئے جس میں سے ایک کے بارے میں تو بات ہی نہیں کی جا رہی ہیں اور باقی دو میں سے ایک پر تقریبا روزانہ ہی خبریں چل رہی ہیں اور پاکستانی میڈیا اس کیس کی تمام تر کاروائیاں دکھا رہا ہے تو جناب یہ ہے دو نہیں ایک پاکستان ، اور اب ان واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں کیونکہ میں جو بات کہنا چاہ رہی ہو اس کے لئے پس منظر جاننا بہت ضروری ہے ایک واقعے میں عثمان مرزا نامی شخص نے اپنے 6 ساتھیوں کے ہمراہ ایک غیر شادی شدہ جوڑے کی تشدد، زیادتی، نازیبا اور غیر اخلاقی ویڈیوز بنائیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک لڑکی کیسے اپنے گھر والوں کو دھوکہ دے کر یا جھوٹ بول کر کسی غیر محرم کے بلانے پر بغیر سوچے سمجھے اس سے ملنے چلی جاتی ہے پھر جو اس جوڑے کے ساتھ جو ہوا تو اس میں لڑکا بھی ملوث ہوسکتا

کہ پھر ساری زندگی اس لڑکی کو بلیک میل کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا رہوں گا دوسرا واقعہ جس پر بات نہیں کی جا رہی ہیں وہ ایک وفاقی ادارے کے گریڈ 17 کے ایک آفیسر کی ہے جس نے کوہاٹ سے ایک لڑکی کو اسلام آباد میں نوکری کا جھانسہ دے کر اسلام آباد بلوایا سارا دن اپنی گاڑی میں گھماتا رہا پھر رات بھر لڑکی کے ساتھ رہا یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ رات بھر کیا کرتا رہا مجھے اس واقعے میں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک لڑکی کے گھر والے کیسے اپنی بیٹی کو ایک انجان شخص سے ملنے کے لیے بھیج سکتے ہیں چاہے نوکری کے لیے ہی سہی انہوں نے کوئی معلومات نہیں کی کہ آخر کون شخص ہے کہاں ملازمت دے رہا ہے اور ایسے لڑکی کو ڈائریکٹ بلا کر بھلا کون عزت کی ملازمت دیتا ہے

یہ واقعہ بھی میرے لیے انتہائی اچھنبے کی بات ہے تیسری داستان الم نور مقدم کی ہے جو کہ سابق سفارتکار کی بیٹی ہونے کی وجہ سے زبان زد عام ہیں نور مقدم جو کہ ظاہر جعفر نامی اپنے دوست کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دی گئی وہ اپنے دوست کے ساتھ کافی عرصے سے تعلقات استوار کئے ہوئے تھی جب لڑکے نے شادی پر زور دیا تو نور مقدم نے صاف انکار کردیا وہ یہ ناجائز رشتہ رکھنے کو برا نہیں سمجھتی تھی کیونکہ اس میں ہر طرح کی آزادی تھی اور شادی اسے قید لگتی ہوگی یا لڑکے کی کچھ ایسی سرگرمیاں جو مناسب نہیں ہوں گی وہ جان کر نور مقدم نے شادی سے انکار کیا وجہ کچھ بھی رہی ہو کیا نور مقدم کے والدین اپنی بیٹی کی سرگرمیوں سے واقف نہیں تھے اس دردناک واقعے کی کم و بیش ہر کوئی مذمت کر رہا ہے

اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے آواز بلند کر رہا ہے اور یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن میرا سوال ان تینوں لڑکیوں کے والدین سے ہے کہ کیا ان واقعات میں آپ کی بیٹیاں بھی برابر کی قصوروار نہیں؟وہ کس قانون اور شریعت کے تحت ان درندوں سے ملتی تھی ایک کو تو چلئے نوکری کا جھانسہ دیا گیا اور وہ بے وقوف بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل پڑی یقیناً کوئی انتہا درجے کی مجبوری رہی ہوگی مگر باقی دو لڑکیوں کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا کوئی باپ بھائی دیگر رشتے دار وغیرہ یہ تمام واقعات یقیناً اسی بل کے ثمرات لگتے ہیں جو شدید عجلت میں گھریلو تشدد کے نام پر بنایا گیا ہے

جو کہ اب پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ملک دشمن عناصر اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے میرے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل ملک بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور یہ یقیناً اسلام اور پاکستان دشمنی کے سوا کچھ نہیں عوام الناس اور اشرافیہ کو چاہیے کہ اسلام کے اصولوں سے انحراف ختم کرکے اسلامی طرز زندگی کی جانب اپنے قدموں کو واپس لائیں اسی میں ہی عافیت اور برائی سے نجات ہے بصورت دیگر ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور والدین آہ و فغاں اور عوام افسوس کرتی رہ جائے گی اور میڈیا کو سنسنی پھیلانے کے لیے گرم مصالحہ مل جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں