267

یومِ آزادی:کون کہتا ہے ہم آزاد ہیں

یومِ آزادی:کون کہتا ہے ہم آزاد ہیں

تحریر:کومل شہزادی
ماہ اگست شروع ہوتے ہی ملک بھر میں جشن آزادی جوش و جذبے سے منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں آزادی کا مطلب ہوتا کہ آپ آزاد ہوں کوئی جرائم و برائی باقی نہیں۔ہر طرح سے آزاد ہیں۔ذرا سوچیے کیا ہم ذہنی طور پر آزاد قوم ہیں۔آزادی سٹر کوں پر جھنڈے اُٹھا کر اور شورمچا کر یہ کہنا کہ ہم آزادی منا رہے ہیں۔ پہلے آزادی کا مطلب جانیے کہ پے کیا ؟؟بقول محسن بھوپالی:

ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کے خاک ہوئے
بھری بہار میں اس طرح اپنا باغ جلا
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

ستر سال سے زائد بیت چکے ہم تب سے آزاد ہیں، کیا ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں، کیا ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد اور رسومات پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، کیا ہماری معیشت آزاد ہے، ہمارے ہاں قانون آزاد ہے، لوگ آزاد ہیں، اظہار رائے کی آزادی ہے؟یک آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلام ہیں یہاں ہر شخص کسی دوسرے شخص کے حقوق چھین رہا ہے توہم آزاد کیسے ہوئے؟ آزاد قوموں میں تو ہر شخص کو اس کی عزت وآبرو اس کے جان ومال کی حفاظت کا حق حاصل ہوتا ہےہم آزاد ہیں! ہمارے ادھر انصاف بھی بکتا ہے، صرف دام بڑھاو.. فیصلہ اپنے حق میں کرواو۔
جسمانی غلامی ، قانونی غلامی ، نفسیاتی غلامی اور ذہنی غلامی پہلے کی نسبت بہت بڑھ چکی ہیں۔ذرا سوچیۓ….سوچیۓ کہ اگر ہم واقعی آزاد ہیں تو اب بھی ہم ذہنی طور پر انگریزوں کی قید میں کیوں ہیں؟کیوں؟آخر کیوں ہم اپنے شب و روز انگریزوں کی پیروی کرتے ہوۓ بسر کرتے ہیں۔اپنے بچوں کو فرفر انگریزی بولتا دیکھ کر کیوں ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ہم نے ملک تو آزاد کروالیا۔لیکن ذہنی وثقافتی طور پر ہم ابھی بھی اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔

اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں