ڈاکٹر صائمہ بتول بڑے گھر کی بیٹی 285

ڈاکٹر صائمہ بتول بڑے گھر کی بیٹی

ڈاکٹر صائمہ بتول بڑے گھر کی بیٹی

تحریر:سچ /عبدالجبار
گو ڈاکٹر محمد رمضان سمرا لیہ کے ایک معروف اور قابل قدردوست اور انسان ہیں جن کی پیشہ ورانہ خدمات سے انکار ناممکن ہے مگر ڈاکٹر صائمہ بتول سمرا کا اعزاز یہ نہیں کہ وہ لیہ کے ایک معروف ڈاکٹر محمد رمضان سمرا کی بیوی ہے اس کا اعزاز یہ ہے کہ وہ سیاست میں ایک بڑے گھرانے کی بیٹی ہے مہر منظور حسین سمرا مرحوم پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا نام تھا 1973کے آئین پر مہر منظور حسین سمرا کے باقاعدہ دستخط ہیں اور جب ذوالفقار علی بھٹو شہید لیہ تشریف لائے تو مہر منظور حسین سمرا کے ہاں بھی قیام فرمایا یہ اعزاز کسی کیلئے کم نہیں

کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سنگت اسے نصیب ہوئی ہو مہر منظور حسین سمرا جب تک سیاست میں رہے سیاست میں ان کا کردار دبنگ سیاستدان کی طرح رہا وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بیوروکریسی نے سیاست کو کرپشن پر لگایا ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ سیاست خدمت کا نام تھا مگر 85کے بعد لوگوں نے اسے کاروبار بنا لیا سمرا خاندان میں مہر منظور حسین سمرا اور مہر فضل حسین سمرا نے پیسے کی سیاست کی ہمیشہ نفی کی مہر فضل حسین سمرا لیہ کے ایک درویش سیاست دان تھے انہوں نے ہمیشہ میرٹ کی سیاست کی اور لیہ کی کرپٹ سیاست کے خلاف ہمیشہ ایک مجاہدانہ کردار ادا کیا اور ہمیشہ ایسے سیاست دانوں کے خلاف ڈھال بنے رہے جنہوں نے عوامی امنگو ں کی نفی کی
سمرا خاندان ضلع لیہ کا ایک بڑا سیاسی خاندان ہے

تھل میں جن کی جائیدادیں دریائے سندھ سے لیکر دریائے چناب تک پھیلی ہوئی تھیں مگر مہر منظور حسین سمرا ایک ایسے سیاستدان رہے جنہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر سیاست کی اور یہی عوامی سیاست تھی تھل میں سمرا تھل کلاں،سمرا نشیب کے نام پر پھیلے ہوئے قطعات اراضی سمرا خاندان کی ہی اراضی تھی ڈاکتر صائمہ بتول کا یہ اعزاز بھی ہے کہ وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی پہلی خاتوں ہیں جو ایم ایس کی کرسی پر فائز ہوئیں اور ان کی تعیناتی کے بعد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں جس طرح ایک عام سائل اور مریض کو پزیرائی ملی ہے اس کی داد ایک عام شہری بھی دے رہا ہے انہوں نے اس کے علاوہ بھی ہسپتال میں دیگر شعبہ جات میں چیک اینڈ بیلنس کو جس طرح قائم کیا ہے یہ ایک اچھی ایدمنسٹریٹر کا ہی خاصہ ہے میں بہت سے ایسے مریض دیکھے ہیں جنہوں نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صائمہ بتول کے چارج سنبھالنے کے بعد ہمیں انسانیت کے حوالے سے جو رویئے ملے ہیں

وہ ماضی میں نہیں ملےبے شمار کلیدی عہدوں پر کام کرنے کے ساتھ بطور ڈاکٹر ان کا شمار ڈاکٹروں کے اس نایاب قبیلے سے ہوتا ہے جنہیں ہم ان کی غریب نوازی، احساس ہمدردی اور انسانیت کے جذبے سے مالا مال ہونے کی بنا پر مسیحا کا درجہ دے سکتے ہیں۔ یہ گواہی مختلف نامور ڈاکٹرز دے رہے ہیں انہوں نے ہمارے سامنے ایک سچے اور خالص مسیحا کی تصویر پیش کی وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر کی حوصلہ افزا بات چیت مریض کے لئے اصل دوا کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹروں کو مریضوں کے سماجی‘ تعلیمی اور جذباتی پس منظر کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر کو مریض سے بات چیت ضرور کرنی چاہیے کرونا کی وبا میں ڈاکٹر صائمہ بتول کا کردار ایک مسیحا کا رہا انہوں نے صرف جذبے اور حوصلے سے کرونا کے مریضوں کو ہر کمی پر قابو پانا سکھایا۔
دوسرے افراد کی زندگیوں کے اتار چڑھاؤ‘ آزمائشوں کامیابیوں اور ناکامیوں کو ہم اپنی زندگیوں سے relateکر کے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیںبنیادی طور پر ہم سچ سے خوف زدہ ہونے والے لوگ ہیں۔ بہرحال پورا سچ تو شاید کبھی بھی بیان نہیں ہو سکتا۔ ہم لوگ مگر ادھورے سچ کا حوصلہ بھی کم کم رکھتے ہیں۔اپنے شعبے میں صائمہ بتول کی پروفیشنل خدمات خواہ وہ اکیڈمک ہوں یا انتظامی، وہ بے پناہ اور قابل قدر ہیں۔ لیکن سچی بات ہے انسان کا رتبہ اسی سے طے ہوتا ہے کہ اس کے اندر انسانیت اور ہمدردی کتنی ہے اور یہ خاصیت سمرا خاندان کی اس بیٹی میں موجود ہے کہ یہ وصف اسے وراثت میں ملا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں