اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی راہ، فتح کابل کیا ہموار کریگا؟ 241

فقراء فری معاشرہ بنانا کیا ناممکن کام ہے کیا؟

فقراء فری معاشرہ بنانا کیا ناممکن کام ہے کیا؟

تحریر:نقاش نائطی
۔ +966504960485

ضرورت مند کی بے مطلب مدد کرتے ہوئے اسے صدا کا فقیر بنائے رکھنے کے بجائے، اسے روزگار یا چھوٹی موٹی تجارت پر لگا محنت سے کمانا سکھائیےفقراء فری معاشرہ کی تعمیر کیا ناممکن عمل ہے کیا؟

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1266931200408526&id=100012749744841

مسجد نبوی ﷺ کے باہر کوئی مسلمان بھیک مانگ رہا تھا اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا پوچھا کہ “کیوں بھیک مانگ رہے ہو؟” اسنے کہا “کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں اور بچوں کی پرورش بھی کرنی ہے” آپ ﷺنے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں اس نے کہا تین درہم۔ آپﷺ نے اس سے کہا “بازار جاؤ ایک کلہاڑی خرید لو اور پاس کے جنگل سے کچھ لکڑیاں کاٹ لاؤ اور اسے مدینہ کے بازار میں بیچ کر اپنی محنت کی کمائی سے اپنی اولاد کی پرورش کرو”

1970 میں محترمہ اندرا گاندھی کی سازش و مدد سے پاکستان سے آزاد ہوئے ملک بنگلہ دیش، ہمہ وقت سیلاب و سمندری طوفان سے غریب اور پچھڑا ہوا ملک تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش کے مسلمان تاجر تھے۔ وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں ہوتے تھے، انکو چھوٹے قرضے دینے کے نظام مائکرو فائینانس کا رواج دنیا والوں کو متعارف کرایا تھا۔ اس کے علاوہ وہ گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں ان کو غریب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔

انکا مشہور قول ہے کسی بھوکے فقیر مسکین کو ایک مچھلی مارکیٹ سے خرید کر دوگے تو وہ اسے اپنی آل اولاد کے ساتھ خوشی سے کھاکر ایک دن کے لئے نہایت مطمئن ہوجائیگا لیکن دوسرے دن سے وہی بھوک فاقہ اسے ہمیشہ کے لئے دوسروں سے مدد مانگتے مانگتے، صدا کا فقیر بنائے گی۔اس لئے اگر کسی مسکین غریب شخص کو مچھلی پکڑنےنل والا جال اور کاٹنے دیتے ہوئے؛ ندی دریا سمندر سے مچھلی پکڑنا سکھادوگے تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کی اپنی محنت کی کمائی سے عزت سے پرورش کرنے لائق بنے گا بلکہ معاشرے کی ضروریات مچھلی بھی دستیاب ہوتی رہے گی

اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اس مسکین کو کلہاری خرید جنگل سے لکڑیاں کاٹ لا مارکیٹ میں بیچ، محنت کی کمائی سے اپنی اولاد کی پرورش کی ترغیب دی تھی۔ آج اس کورونا وبا کے بعد خصوصا ہم بھارت واسیوں کی بدقسمتی سے ہم پر حکمران بنائے گئےسنگھی مودی جی کے انتخابی منشور و وعدہ، دو کروڑ لوگوں کو ہر سال نئی نوکری فراہم کرنے کے انکے اپنے وعدے کے خلاف،انکے چھ سالہ دور اقتدار میں سالانہ دو کروڑ کے حساب سے اب تک بارہ تیرہ کروڑ لوگوں کو نئی نوکری ملنی چاہئیے تھی اس کے برخلاف، انکی ناعاقبت اندیش معشیتی پالیسئز سے،اب تک انکے وعدے سے ڈیڑھ گنا

زیادہ کم و بیش 18 تا 20 کروڑ پہلے سے روزگار پر رہے بھارت واسی بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ایسے ہر آشوب ہس منظر میں، بھیک مانگنے پر محنت مزدوری سے حلال رزق کمانے کی ترغیب دینے والے خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہم مسلمانوں کو انکے تنگ دستی کے سبب بھیک مانگنے سے، ان کو ماورا رکھنے ہی کی خاطر، بغیر سود قرضہ دیتے ہوئے یا اپنی طرف سے مدد کرتے ہوئے، انہیں کسی چھوٹی موٹی تجارت یا پیشے سے منسلک و مصروف کردیں تو ایک طرف فقرآء کی تعداد کم کرتے ہوئے صالح معاشرے کی طرف گامزن ہوا جاسکے گا اور دیش کی ترقی انتی بھی ہوگی۔

ویسے بھی سچے پکے مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں زکاة تو نکالنی ہی ہوتی ہے اور زکاة کے علاوہ خاتم الانبیاء کے ترغیب دئیے طریقہ سے، ہم اکثر مسلمان صدقہ بھی خوب دل کھول کردیا کرتے ہیں۔ اپنے صدقہ و زکاة فنڈ سے کئی سو غرباء کی بے وقعت مدد کرنے کے بجائے باقاعدہ ایک نظم کے تحت، ہر ایک صاحب حیثیت، ہر سال کسی ایک مفلس غریب کو روزگار یا پیشہ وارانہ معاش پر یاچھوٹی موٹی تجارت ہی پر لگادے تو معاشرے میں ہزاروں صاحب حیثیت کے، سالانہ ایک ہی کے حساب سے کئی سو ہزار مفلس لوگ پیشہ ور فقیر بننے کے بجائے، نہ صرف عزت سے کما اپنی آل اولاد کی تربیت کرنے والے بن جائیں گے بلکہ ایک دوسالوں بعد آج کے بھیک مانگنے والے کل زکاة و صدقہ دینے والوں میں تبدیل ہوتے ہوتے،

قرون اولی کے خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، اور خلافت عثمانیہ کے دور والے، زکاة لینے والوں کے فقدان کا ماحول آج بھی معاشرے میں واپس لاسکتے ہیں۔ گر ہم باہم اتفاق و محنت و پوری دلجمعی کے ساتھ کوئی بھی کام کریں تو کوئی بھی کام ناممکن ہم نہیں پائیں گے۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے افغانی پٹھان اور بھارتیہ سکھ یہ وہ دو قومیں ایسی ہیں جن میں بھیک مانگنے والے نا کے برابر ہیں کیا ہم اہل نائط تجار قوم ایک مشن ایک منصوبے کے تحت اپنی آل نائط کو توکم از کم بھیک مانگنے والے مکروہ پیشہ سے مجتنب و ماورا کیا نہیں رکھ سکتے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں