موجودہ ادبی منظر نامہ
تحریر:نوید ملک
موجودہ ادبی منظر نامہاور تازہ انجم گو کہ یہ شعر علامہ اقبالؒ کی نظم” فاطمہ بنتِ عبد اللہ ” سے لیا گیا ہے مگر تازہ انجم اور فضائے آسماں کے مفہوم میں بہت وسعت ہے۔کسی بھی میدان میں نئے ہنر مند کو تازہ انجم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہوردیدہ نساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نورپروفیسر فتح محمد ملک کی تازہ کتاب”پاکستانی ادب” منظر عام پر آ چکی ہے۔آپ بلند پایہ نقاد اور محقق ہیں۔ ایک ملاقات کے دوران میں نے آپ سے سوال کیا”نسلِ نو تک شاعری پہنچتے پہنچتے بگڑ گئی ہے یا سنور گئی ہے”آپ کا خوبصورت جواب ملا”شاعری، شاعری ہوتی ہے۔ہر دور کے شاعروں کا اپنا اسلو ب ہوتا ہے
اور ہر عہد میں شاعری اپنا وجود خود تسلیم کرواتی ہے۔ میرے تحقیقی کام کا مقصد بدلتی تہذیبوں کے سماجی و معاشرتی حالات پر منفی یا مثبت اثرات کو سامنے لانا ہے اور شاعری بھی اسی دائرے میں آتی ہے”سوشل میڈیا نے گلوبل ویلج کے تمام تخلیق کاروں کو ایسی گول میز کے گرد بٹھا دیا ہے جہاں وہ اپنی بات آسانی سے سمجھا سکتے ہیں اور دوسروں کو سمجھ سکتے ہیں۔کس گاؤں، کس شہر اور کس ملک کے کس شاعر کی تخلیقی کاوشیں، کس موضوع کے گرد گھومتی ہیں آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتاہے۔اب اپنے جذبات کو لفظوں میں ڈھال کر دوسروں تک پہنچانے کے لیے میگزین، اخبار یا رسائل وغیرہ کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔
وٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب وغیرہ وہ ذرائع ہیں جنھوں نے تخلیق کاروں کو بہت فائدہ پہنچایا۔گو کی سوشل میڈیا کی جنگ میں بھی وہ تمام کردار سرگرمِ عمل ہیں جو کسی زمانے میں جنگوں میں بھی ہوا کرتے تھے۔یعنی دوست، دشمن، سپہ سالار، منافق، پہلوان، بزدل، بہادر، تیر انداز، گھڑ سوار وغیرہ۔کسی بھی تخلیق کار کو ان تمام کرداروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کرداروں کا تعارف پھر کسی کالم میں پیش کروں گا
۔نسلِ نو کے تخلیق کار جن کی کاوشیں امکانات سے بھرپور ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔شعری منظر نامے سے ہٹ کر عمومی ماحول کی بات بھی کی جائے تو یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔شاعری کو فضول کام سمجھ کر ”عام لوگ” بھی تخلیق کار کی کاوشوں کو ”رَد کی ٹوکری ” میں پھینک دیتے ہیں۔یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ میں نے زندگی مختلف دائروں میں گزاری ہے۔شاعروں کے ساتھ بھی اور غیر شاعروں کے ساتھ بھی۔عام آدمی بھی مادی ترقی کی دوڑ میں تخلیقی صلاحیتوں کو تراشنے سے بیزار نظر آتا ہے۔آسائشوں کی طلب نے ”ادب” کو کچلنے کی کوشش کی مگر تخلیق کار کے سینے میں موجود ‘
‘جہد” کے شعلے ہواؤں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں نوجوان لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آ رہی ہے۔یہ نوجوان منفی سرگرمیوں میں بھی اپنے توانائی خرچ کر سکتے تھے مگر انھوں نے لفظوں کو فوقیت دی اور قلم تھامے اپنے اذہان کے دریا قرطاس پر بہا کر خشک سالی کو ہریالی میں بدلنے کے لیے مصروف ہو گئے۔کچھ دوستوں کے منتخب اشعار آپ کی نذر
کائناتوں نے عبث جلوے لٹائے اپنے
جینے والوں نے بڑی دیر سے آنکھیں کھولیں
احمد الکلام نعمان
اگرحالات کڑوے ہوں تو لہجے کو نہ کڑوا کر!
ترا شیریں دہن روشن کرے گا تیرا مستقبل
نازیہ نزی
جیسے توڑا تھا ویسے جوڑ مجھے
میری ترتیب کو خراب نہ کر
ساجد حیات
دل کے یورپ میں مسجد کے نقشے ملے
میرے دل میں کلیسا نہیں بن سکا
ارباز باغی
یہ وقت ہی بتائے گا کھویا ہے کس نے کیا
تجھ سے بچھڑ کے کچھ بھی ہمارا نہیں گیا
آدی عباسی
موسم کی خرابی کے سبب رات ٹھہرتے
سونے کو یہ بستر نہیں دامن تجھے دیتے
رانا غضنفر علی غصنفر
تمہارے ہونٹوں سے مصرعے نکالنے ہیں مجھے
تمہارے لمس کی گرمی پہ شعر کہنا ہے
راجاحارث دھنیال
پھر سے ڈھالوں گا تم کو لفظوں میں
اب تخیل نیا سفر میں ہے
حسن گمان
شور اتنا ہے کہ جنگل گونجتا ہے رات دن
کیا بتاؤں کس درندے کی خدائی ہے یہاں
حیدر علی واحدی