جنگ بدر کے 313 سپاہی اور افغان 313 بدری کمانڈو 145

روز محشر کے مساکین ہم مسلمان

روز محشر کے مساکین ہم مسلمان

تحریر: نقاش نائطی
۔ +966504960485

کتے کی خصلت سے جب تک ہم مسلمان مبراء نہیں ہوتے ہم آخرت کی کامیابی کیسے پا سکتے ہیں؟ایک بزرگ جارہے تھے تو دیکھا علاقہ کے کوئیں سے لوگ ڈول بھر بھر کے نکال کر باہر زمین پر بہا رہے ہیں۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ کوئیں میں کتا گرگیا ہے اس لئے مولوی صاحب نے کہا ہے کہ سو ڈول بھرکر کوئیں سے پانی نکال باہر پھینک دینے سے، کوئیں کے اندر جھریانوں سے آنے والا نیا تازہ پانی، کوئیں میں موجود پرانے پانی کے ساتھ مل جانے کے باوجود پاک و صاف قابل استعمال ہوجائیگا

پتا نہیں ان بزرگ کے دل میں کیا خیال آیا انہوں گاؤں والوں سے پوچھا کیا کوئیں سے کتے کو نکالا گیا ہے؟ لوگوں نے نہیں کتا تو کوئیں میں ہی ہے۔ بزرگ نے کہا اللہ کے بندو پہلے کوئیں سے کتے کو نکال لو، پھر کوئیں کا پانی پاک و صاف کرنے کے لئے سو ڈول پانی نکال پھینک دینا ورنہ سو کیا ہزار ڈول بھی کوئیں سے پانی نکالوگے تب بھی کوئیں کا پانی گندے کا گندہ ہی رہے گا۔ اس وقت تک جب تک کتے کو کوئیں سے نکال نہیں دیتے!کتے کے بارے قرآن کہتا ہے کہ “کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کتا بھوکا ہے

یا پیٹ بھرا ہوا ہے کیونکہ اس کی زبان باہر لٹکتی رہتی اور زبان سے رال ٹپکتی رہتی ہے” قرآن مجید کی کتے کی یہ خصوصیات جس بھی انسان میں پائی جاتی ہے وہ کتے جیسے نجس جانور جیسا ہی ہے۔ اب خود اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم سے جو کون ہے جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر قناعت کئے اللہ کا شکر بجا لانے والوں میں سے ہے اور کون ہے کہ کہیں بھی کچھ مال غنیمت کو پائے تو اسےحاصل کرنے، اس کی رال ٹپکنے لگے؟ اور وہ، ہر جائز ناجائز طریقہ سے اسکے حصول میں لگ جائے

آجکل مسلم سماج میں یہی کچھ تو ہورہا ہے۔ ہم میں موجود کتے کی خصلت اور شیطانی اعمال، ہم اپنے میں سے جب تک نہیں نکالیں گے، شرک و بدعات نہ کرنے کا مکمل عہد جب تک نہیں کریں گے،حقوق انسانی کا پاس و لحاظ رکھنے کی کوشش جب تک نہیں ہوگی، تو ہمارے نفل نمازیں ذکر واذکار کجا ہمارے فرض نماز روزے بھی ہم پر آترنے والی آزمائیشوں مصیبتوں سے نجات کے لئے ڈھال بن کر، ہماری حفاظت کر نہیں پائیں گے۔ ہاں البتہ فرض نماز روزے نہ کرنے کے عذاب سے یقینا ہم بچے رہیں، لیکن ان نماز روزوں کی برکات سے ہم یقینا محروم ہی رہیں گے

نماز روزے، صدقہ و خیرات ،حج وعمرہ جیسے فرض اعمال تو ہمیں وقت پر کرنا ہی ہیں بصورت دیگر ان فرایض کے نہ کرنے سے جو عذاب کے ہم شکار ہونے والے تھے اس سے ہمیں کوئی بچا نہیں پائے گا،لیکن اللہ ہمارے ان ادائیگی فرائض کے محتاج نہیں ہیں۔ بجز دین میں ثواب کی نیت سے دانستہ کی جانے والی زیادتی بدعات و شرکیہ اعمال کے علاوہ، ادائیگی فرائض میں ہونے والی کوتاہیوں کو تو وہ معاف کرنے والا غفور الرحیم ہے لیکن حقوق العباد والی ہماری لغزشوں غلطیوں پر معافی تلافی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگی

جب تک لغزش کرنےوالے اور اس لغزش سے متاثر ہونے والوں کے مابین زندہ رہتے، معافی تلافی نہ ہوجائے، دونوں فریق سے ایک گرمرجائے تو سنن و نوافل کے نیکیوں کے کتنے بھی انبار ہم لئے آخرت میں نہ پہنچ جائیں، کل محشر کے دن حساب کتاب میں،دنیوی لغزشوں کوتاہیوں والی حقوق العباد متاثرین میں، ہماری نیکیاں تقسیم ہوتے ہوتے نیکیاں کم پڑتے پڑتے، ان متاثرین کے گناہ، ہمارے حصے میں آتے آتے،

کل قیامت کے دن ہمارا حال یہ ہوگا کہ ہم جتنی نیکیوں کے پہاڑ مرتے وقت ساتھ لئے آخرت میں پہنچے تھے ہمارے پاس دوسروں کے ،کئے گناہوں کے اتنے ہی پہاڑ جمع ہوجائیں گے۔ ایسے ہی ہم مسلمین کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روز محشر کے مسکین کے خطاب سے ہمیں نوازا تھا۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشین گوئی کردہ، روز محشر کے مساکین میں سےہمیں نہ بنائے اور خاتمہ بالخیر ہوتے عالم برزخ و محشر کی سختیوں سے ہمیں آمان میں رکھے.وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں