عورت کا دائرہ عمل اور فلاحی معاشرہ کا قیام 179

عورت کا دائرہ عمل اور فلاحی معاشرہ کا قیام

عورت کا دائرہ عمل اور فلاحی معاشرہ کا قیام

تحریر:مریم حیات راولپنڈی

عورت کا دائرہ عمل اور فلاحی معاشرہ کا قیام نئی مغربی معاشرت کے تین نظریات جن میں عورتوں اور مردوں کی مساوات کے معنی یہ سمجھ لیجئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبہ اور انسانی حقوق میں مساوی ہیں بلکہ تمدنی زندگی میں عورت بھی وہی کام کرتی ہے جو مرد کرتے ہیں۔دوسری طرف عورتوں کے معاشی خود مختاری نے اسے مرد سے آزاد کر دیا ہے اور قدیم اصول کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام سبنھالتی ہے اب کے دور میں عورت اور مرد دونوں کما رہے ہیں اور گھر کا انتظام بازار کے سپرد کر دیا گیا۔

تیسری طرف دونوں صنفوں کا آزادانہ میل جول صنفی میلان پیدا کرتا جارہا ہے جو پہلے ہی فطری طور پر مرد اور عورت کے درمیان موجود ہے اور کافی طاقت و ر ہے۔اس میلان کو تعمیری اور تخلیقی کاموں کے لیے استعمال کرنا اورمرد اور عورت کی ذہنی اور اخلاقی قوتوں کی نشوونما کرنا ضروری ہے۔مگر اسلامی معاشرے نے اس میل جول کو چند اخلاقی حدود میں مقید کیا جا?جس سے معاشرے میں توازن اور خوبصورتی پیدا ہوجا?۔
دین اسلام نے عورت کے تمام حقوق و فرائض کو بہت جامع انداز میں بیان قرآن پاک اور سیرت طیبہّ کی شکل میں موجود ہے اسی میں عورت کی اصل پہچان ہے فطرت نے تمام انواع کی طرح انسان کو بھی دو ایسی صنفوں کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ایک دوسرے کی جانب طبعی میلان رکھتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر فضیلت بخشی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”?اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اسکے جوڑے کو پیدا کیا۔”(سورۃ انسائ)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:”مرد جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گے اور عورتیں جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گی”۔ (سورۃ انسائ)ایمان اور عمل صالحہ کے ساتھ روحانی ترقی کے جو درجات مرد کو عطا گئے ہیں وہی عورت کیلئے بھی ہیں جیسے ابراہیم بن ادھمؒ اور رابعہ بصریؒ… غرض کہ قرآن پاک میں کئی جگہ مرد اور عورت کو ایک ساتھ پکارا گیا ہے۔سورۃ انساء میں ارشاد ربانی ہے کہ: ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ نے ان میں سے ایک دوسرے پر عطا کی ہیں اور اس بنا پر کہ وہ ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں‘‘…
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے پر درجات میں فضیلت بخشی ہے۔ جب عورت گھر میں بیٹی کے روپ میں موجود ہے تو ہمارے نبیﷺ اس کے آنے پر اپنی چادر بچھا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی،بہترین تعلیم و تربیت کی پھر شادی کی تو قیامت کے دن وہ میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے دو انگلیاں۔ بیٹی کے روپ میں وراثت میں سے ایک حصہ کا وارث لڑکی کو بنایا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:’’اللہ نے تمہارے لیے خود تمہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم انکے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان مودت اور رحمت رکھ دیں‘‘۔۔۔۔۔
… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

کہ: وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم انکے لیے لباس ہو‘‘… (سورۃ البقرہ)خدا نے نوع انسانی کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ اس کے چند افراد زمین پر اپنے نفس کی پرورش کریں اور بس ختم ہو جائیں بلکہ اس کا ارادہ ایک اجل معین تک اس نوع کو باقی رکھنے کا ہے اور اس نے انسان کی حیوانی فطرت میں صنفی میلان اسی لیے رکھا کہ اس کے زوجین باہم ملیں اور خدا کی زمین کو آباد رکھیں۔یہاں اللہ تعالیٰ نے مرد کو شوہر کی حیثیت سے فوقیت دی ہے مگر بیوی کے روپ میں اس کے گھر میں اس کی عزت وناموس اور جان و مال کی مخافظ بنا دی گئی ہے اوراس کے بچوں کی پہلی تربیتی درسگاہ بھی یہ عورت بنتی ہے اور وراثت میں اس کا 1/8حصہ مقرر کیا گیا ہے۔
رسولؐ سے ایک صحابی نے فرمایا کہ” میں نے اپنی کندھے پر بٹھا کر اپنی ماں کو حج کروایا ہے کیا میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو آپؐ نے فرمایا،” تم نے اس کے دودھ کے ایک قطرے کا صرف حق ادا کیا ہے۔” سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ماں کی خدمت کے سامنے مال و دولت، اولاد، دنیا کچھ بھی نہیں ہے۔

اسلام نے عورت کو جو مرتبہ دیا ہے اس سے پہلے کسی مذہب کی عورت کو نہیں ملا۔ عورتوں کو دینی اور دنیاوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی طرح ضروری بھی قرار دیا گیاہے۔نبی کریمؐ سے دین و اخلاق کی تعلیم مرد اور عورتیں سب حاصل کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ مردوں کی بھی معلمہ تھیں۔دین اسلام میں عورتوں کی بھی بہت بڑی بڑی مثالیں قائم ہیں ہمارے نبیؐ نے ایک تاجر خاتون سے شادی کی جو تجارت کیا کرتی تھی۔
اسلامی نظام معاشرت کا

پورا خاکہ عورت کے دائرہ عمل کے گرد ہے بیشک یہ دائرہ عمل مرد کے دائرے سے الگ ہے مگر دونوں کی فطرت،ذہنی و جسمانی استعداد کے لحاظ سے تمدن کی الگ الگ خدمات ان کے سپرد کی گئی۔ ان کے تعلقات کی تنظیم اس طور پر کرنی چاہیں کہ وہ جائز حدود کے اندر ایک دوسرے کے لیے مدد گار ہوں مگر حدود سے تجاوز کر کے کوئی فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن پاک کی تشریح کو وضاحت سے پڑھیںں اور اپنے معاشرے میں عورت کو جائز مقام دیکر فلاحی ریاست قائم کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں ہی فلاحِ نصیب ہوگئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں