فریادِ پاکستان 171

فریادِ پاکستان

فریادِ پاکستان

تحریر: اسد الرحمن
میرا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مجھے 14 اگست 1947 میں بنایا گیا مجھے بنانے میں ان گنت لوگوں کی انتھک جدوجہد شامل ہے مجھے حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اپنی جانون کے نظرانے پیش کیے۔ کسی نے اپنا سر کٹایا تو کسی نے سینے پرگولی کھائی اورمجھے بنانے میں چٹان کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹ گئے، اسی طرح عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنی جانوں کے نظرانے پیش کئے۔ ماؤںنے اپنے لخت جگرسولی پر لٹکتے دیکھے مگرقربانی دینے سے گریز نہ کیا ۔ مجھے حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اپنا مال و دولت سب کچھ میرے حصول کی خاطر قربان کردیا 
میرے حصول کی خاطر قائداعظم محمدعلی جناح اور انکے ہم خیال ساتھیوں نے دن رات محنت کرکے میراقیام عمل میں لائے۔میری داستانِ اذیت، تاریخ کی ورق گردانی کرنے پہ معلوم ہوگی ۔مگر اس وقت جب اپنی حالت دیکھتا ہوں توایک آہ۔۔۔! نکلتی ہے ۔میرے بنانے کے مقاصد کیا تھے۔۔؟
مگر آج یہاں غریب کے ساتھ کیا ہورہاہے۔ جس کے تحفظ کے لئے مجھے بنایا گیا ،میرا خواب دیکھا گیا مگرآج یہاں سب کچھ میرے بنانے کے مقاصدکے برعکس ہورہا ہے۔ میرے بنانے والے میری خاطر جان لٹانے والے اگرزندہ ہوتے آج ان کا کلیجہ پھٹ جاتا اور جیتے جی مر جاتے ۔یہاں مذہب کے نام پر اس عظیم قوم کو تقسیم کیا جارہا ہے۔حالانکہ میرے قیام کے وقت ایک قوم کا نعرہ لگا تھاہم ایک قوم ہیں۔مگر افسوس وہ نعرہ مفاد پرستی لوٹ مار کرپشن اور دھوکہ میں اپنا مقام کھو چکا ہے۔

مجھے بنانے کا مقصدیہاں ہرشخص بلا تفریق امیر وغریب پر سکون زندگی گزار سکے۔یہاں لوگوں کی عزتیں محفوظ ہوں۔کسی ظالم کا خوف نہ ہوکسی درندے کاخطرہ نہ ہوظالم سے مظلوم خوف زدہ نہ ہو مگر افسوس صد افسوس آج یہاں انسان انسانیت کے آداب بھول چکا ہے ۔اوررب کائنات کے پیغام کو بھلا کر انسانیت
کو پاؤں تلے روندکرچل دیتے ہیں۔
آج یہاںمظلوم ظالم کے شر سے محفوظ نہیں کوئی ۔یہاں بھائی اپنے ہی بھائی کی جان کا دشمن بناہوا ہےایک اگرغریب ہے تواسے اس قدر ذلیل کیا جاتا ہے کہ بھائی جیسے عظیم رشتے انسان کا بھروسہ اٹھ جائے رب کائنات نے تو محبت کرناسیکھایا تھا مگریہ نفرت کابازار کیوںسجا رکھا ہے۔یہاں معصوم بچوں کے ریپ کے آئے ر وزواقعات نے میرے بنانے کے مقصدکو دھول میں ملا دیا ۔یہاں کسی بھی ماں بہن کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ماں وجان محفوظ نہیں ، کیا یہی تھے مقاصد پاکستان۔۔۔۔؟
پوچھئے اپنے ضمیر سے کیا اس دن کے لئے مجھے بنایا گیا تھا کہ بھائی بھائی کا جان دشمن ہو جائے ،کیا اس لئے بنایا تھا جہاں 8سالہ بچیاں محفوظ نہ ہو ۔کیا یہی تھے مقاصد کہ ماں باپ کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا جائے ۔۔۔؟ کیا یہی مقاصد تھے 40ہزارتنخواہ لینے والا آفیسر ایک مزدور500دیہاڑی والے سے رشوت مانگے ۔۔۔؟کیا یہی مقصدتھا ،لوٹ مار مچا کر سیاست دن اپنی تجوریاں بھرتے رہے

۔نہیں یہ مقصد ہرگز نہیں تھا ۔یہ لوٹ مار ،یہ نفرت کابازار ،عصمتوں کی نیلامی یہ نہیں تھا مقصد۔یہاں مجھ سے محبت کرنے والے کو رسوا وذلیل کیا جاتاہے۔ ایک ایماندار انسان کو ذلت ورسوائی کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔میں دن رات ہر لمحہ خون کے آنسو روتا ہوں ۔ میری اذیت میری داستان سنو اے ظالموں۔۔۔۔؟
میں کس قدر کس اذیت کا شکار ہوں انسانیت کے آداب پہچان جاؤ وگرنہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ چھین لیتا خدا ہروہ چیزجس کی قدر نہ کی جاتی ۔ میری یہ ارداس پڑھ کر اپنے ضمیر سے پوچھئے ضرورکیا یہی مقاصد تھے اور پھر فیصلہ کیجئے ۔۔۔۔میری داستان سنو ۔۔۔۔۔۔ اے حکمرانوں میری ارداس سنو فرقوں میں تقسیم کر نے والے رہنماؤ۔ غور کرو انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کاقتل عام کرنے والے منصفو ۔۔۔۔۔۔۔ سنو ۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔افسوس صد افسوس کس منہ سے روز محشر رب کائنات کا سامنا کروگے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں