کپتان جی صوبائی پولیس افسران و رملازمین کو انصاف دو 150

’کپتان پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کرا سکیں گے؟

’کپتان پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کرا سکیں گے؟

تحریر: محمد اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر 03008600610
وٹس ایپ،03063241100

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کچھ عرصہ قبل ملک سے پروٹوکول کلچر کے خاتمے کا دبنگ اعلان کیا تھا، قبل ازیں اسی طرح کے اعلان ہر برسر اقتدار آنے والے حکمران کرتے رہے، مگر کوئی بھی حکمران اپنے دور اقتدار میں ملک سے پروٹوکول کلچر ختم نہ کرا سکے، کپتان سے قبل ملک پر حکومت کرنے والے محمد خان جونیجو،یوسف رضا گیلانی،بے نظیر بھٹو شہید ،نواز شریف،سمیت کئی شخصیات نے ملک سے پروٹوکول کلچر کے خاتمے کا نعرہ لگایا مگر نہ تو یہ سیاست دان خود پروٹوکول کے بغیر وقت گزار سکے،

اور نہ ہی ان کے ماتحت پروٹوکول کے بنا رہ سکے، اور اس طرح ماضی کے ان حکمرانوں کے پروٹوکول کلچر ختم کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تاہم محمد خان جونیجو کے دور اقتدار میں موصوف خود تو پروٹوکول کلچر استعمال نہیں کرتے تھے لیکن ان کے ماتحت وزراء اوربیورو کریسی کا پروٹوکول شاہانہ تھا۔کپتان نے پروٹوکول کلچر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئندہ کسی نجی تقریب میں سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ساتھ شرکت نہیں کریں گے، کپتان نے یہ بھی کہا کہ اب ملک میں کسی کا جاہ و جلال نہیں چلے گا ،

وزراء اور صوبوں کے گورنرز و وزراء اعلی کے لئے بھی پالیسی بنائی جائے گی تا کہ پروٹوکول سسٹم سے عوام کو تکلیف نہ ہو، کپتان نے کہا تھا کہ حکومتی ارباب اختیار کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ اخراجات کیسے کم کرنے ہیں؟ کپتان کے اس دبنگ اعلان پر تا حال کسی سطح پر بھی پروٹوکول کلچر کا خاتمہ دیکھنے میں نہیں آیا حالانکہ کپتان کے اعلان کو تین ماہ سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا کپتان بھی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح پروٹوکول کلچر استعمال کرنے والوں کے سامنے بے بس ہیں ؟

یا اپنے دبنگ اعلان پر عملدرآمد کروا پائیں گے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ماضی میں ملک سے پروٹوکول کلچر کے خاتمے کا اعلان کرنے والے حکمرانوں اور شخصیات کو شکست ہوئی تھی اور پروٹوکول مافیا جیت گیا تھا، کیونکہ ملک میں چوکیدار سے بیوروکریسی کے اعلی افسران تک، کونسلر سے وزیر اعظم تک اور حکومت میں نا پہنچنے والی سیاسی شخصیات کے علاوہ ایسے وڈیرے جو صاحب حیثیت ہیں پروٹوکول کلچر کے بغیر نہیں رہ سکتے۔وڈیرہ شاہی کا تو اپنا ہی نظام ہے،

جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ شاید کپتان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو؟بات ہورہی ہے پروٹوکول کی تو ہمارے ملک کا یہ خاصہ ہے کہ یہاں درجہ چہارم کے ملازمین سے لیکر بیوروکریسی کے اعلی حکام تک،اور نیچے سے اوپر تک سیاستدان سب پروٹوکول کلچر میں جکڑے ہوئے ہیں، یہی نہیں اس ملک میں جتنے کسی کے وسائل ہیں وہ اتنا ہی پروٹوکول استعمال کررہا ہے، اس طرح ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اس ملک میں اپنا پروٹوکول رکھتا ہے، جس کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے

کہ سرکاری دفاتر میں افسروں کے کمروں کے باہر کھڑے آفس بوائے بھی با اختیار ہیں اور ان کا بھی پروٹوکول ہے،جب تک وہ (آفس بوائے) نہ چاہے تو عام سائل افسر مجاز کے کمرے میں داخل نہیں ہو سکتا؟ اور جو صاحب حیثیت ہیں ان کی گاڑیوں کے دروازے یہی ملازمین کھول کر افسران کے کمرے تک لے جاتے اور ان کی آؤ بھگت کرکے ان کے جائز ناجائز کام کرکے واپس انہیں گاڑی تک ڈراپ کرتے ہیں، اسی طرح کی لاتعداد مثالیں آپ کو روزانہ ملک کے ہر ضلع تحصیل کے کسی نہ کسی دفاترمیں دیکھنے کو ملیں گے۔
ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ملک میں انگریز کا قانون اور پروٹوکول سسٹم چل رہا ہے، جس میں کسی حاکم وقت نے تبدیلی کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے، ملک میں اب اکثریت تھانوں اور عدالتوں میں انگریز کا بنایا ہوا قانون چل رہا ہے، قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کے قانون میں چند ترامیم کی گئی ہیں، جبکہ ملک میں انگریز کے بنائے گئے پروٹوکول سسٹم میں اب تک تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی، ہر وزیراعظم نے ملک سے پروٹوکول کلچر کے خاتمے کا اعلان کیا مگر وہ پروٹوکول کلچر ختم نہ کر سکے ،حتی کہ ان کا دور اقتدار ختم ہوا تو پھر انہیں بھی اسی پروٹوکول کے ساتھ شان بان سے رخصت کیا گیا؟
اس طرح پروٹوکول سسٹم اس ملک،اورمعاشرے کی جڑوں میں نشہ کی طرح سراعت کر چکا ہے، جسے ختم کرنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن نظر آتا ہے ا ب کپتان نے اعلان کیا تھا کہ وہ پروٹوکول کلچر ختم کریں گے؟ نہ جانے ان کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ اوپر سے نچلے طبقے تک پروٹوکول کلچر ختم کرنے جارہے ہیں؟ خدا کرے کپتان اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں،اور ملک سے پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کرکے ملک میں یکسانیت پیدا ہو سکے، وزیر اعظم سمیت وزراء سیاسی شخصیات ہیلی کاپٹروں اور بڑی بڑی گاڑیاں چھوڑ کر عام فلائٹوں، ٹرینوں، مسافر گاڑیوں میں سفر کریں،ملک میں سادہ تقریبات کا انعقاد ہو

،بیورو کریسی اور وزیر اعظم، وزراء اعلیٰ، وفاقی وصوبائی وزراء کے دروازے عوام کے لئے کھول دئیے جائیں ، امیر اور غریب کو سیاسی شخصیات و بیورو کریسی یکساں طریقے سے ملیں، تب عوام کو احساس ہوگا کے ملک سے پروٹوکول کلچر ختم ہوگیا ہے اور یہ ملک ریاست مدینہ بننے جا رہا ہے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ کپتان کے گرد بھی اکثریت ان سیاست دانوں کی ہے جو عرصہ دراز سے اس ملک پر اقتدار اور پروٹوکول کلچر کے مزے لوٹ رہے ہیں، ماضی میں پروٹوکول کلچر کے مزے اڑانے والے کپتان کے اکثریت پرانے ساتھی کیسے چاہیں گے کہ ان کا پروٹوکول ختم ہوجائے

،کیوںکہ کپتان جی یہ لوگ تو پروٹوکول حاصل کرنے کیلئے کروڑوں اربوں روپے الیکشن مہم پر خرچ کرکے حکومت میں آتے ہیں، اگر ان کا پروٹوکول ختم ہو گیا تو انہیں کیا ضرورت کہ وہ کثیر رقم الیکشن مہم پر خرچ کریں گے اور دوران انتخابی مہم عوام کے طرح طرح کے تبصرے بھی سنیں۔ کپتان جی آپ جس ملک سے پروٹوکول کلچر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہاں جب تک ہوٹر والی گاڑی نہ ہو تو بیوروکریٹ اور سیاست دان کی شناخت ہی نہیں ہو پاتی، اکثر سیاستدان تو سیاست ہی پروٹوکول حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں، جبکہ بیورو کریسی کی اکثریت بھی ہوٹر والی گاڑی کیلئے بیوروکریسی میں آتی ہے، تا کہ وہ اپنا جاہ و جلال علاقہ میں قائم دائم رکھ سکیں، ورنہ 90 فیصد بیوروکریٹس تو ایسے ہیں جو سرمایہ دار اور جاگیر دار ہیں، جنہیں نوکری کی کوئی ضرورت نہیں، ان کے تو اپنی زمینوں، کاروباری اداروں میں سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین کام کرتے ہیں۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھی کپتان کی جانب سے ملک پروٹوکول کلچر ختم کرنے کی تو عوام منتظر ہیں کہ کپتان ایسا کرنے کیلئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں،اور اوپر سے نچلی سطح تک کیسے پروٹوکول کلچر کاخاتمہ کرپاتے ہیں کیونکہ کہ ماضی کے حکمرانوں نے پروٹوکول کلچر خاتمے کے اعلان تو کیے مگر اپنے دور اقتدار میں وی آئی پی کلچر کو ختم نہ کرسکے کپتان کی حکومت کے بھی تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اور ان کی حکومت کا دورانیہ اب تقریبا پونے دو سال کے لگ بھگ باقی ہے، عوام منتظر ہے کہ کپتان کب ملک کی بیورو کریسی وزراء اور سے پروٹوکول ختم کرواتے ہیں۔ یا پھر ماضی کی طرح کپتان کا یہ دعوی بھی محض دعوی ہی ثابت ہو گا، سیاسی تاریخ لکھی جائے گی تو کپتان کا شمار بھی ان سیاستدانوں میں ہو گا۔ جن کے اکثر دعوے صرف زبانی جمع خرچ تک رہے۔ مگر پورے نہ ہو سکے اور ان کے اقتدار ختم ہو گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں