مانگنا بھی ایک آرٹ ایک ہنر ہے 166

بھارت میں ھندو مسلم اتحاد کی ذمہ داری، صرف مسلمانوں کی ہی ہوکر کیا رہ گئی ہے؟

بھارت میں ھندو مسلم اتحاد کی ذمہ داری، صرف مسلمانوں کی ہی ہوکر کیا رہ گئی ہے؟

تحریر: نقاش نایطی
۔ +966562677707

آج سے بیس سال قبل بوسٹن شہر کی یونیورسٹی میں مختص جائےنماز جگہ جب مقامی مسلمانوں کے لئے جمعہ کی نماز پڑھنے تنگ محسوس ہونے لگی تو مقامی مسلمانوں کے ذمہ داروں نے جمعہ کی نماز پڑھنے، ہال کی تلاش میں مقامی چرچ تک جا پہنچے جمعہ کی نماز کے لئے مسلمانوں کو کوئی بھی ھال دو گھنٹہ کے لئے درکار تھا۔ اس لئے آج سے بیس سال پہلے چرچ کے ذمہ داروں نے شروع میں چرچ کے نیچے کا تہ خانہ مسلمانوں کو نماز کے لئے دینا شروع کیا

چونکہ مسیحیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے آسمانی خدا کی عبادت کے لئے ھال درکار تھا اس لئے بعد کے دنوں میں، چرچ انتظامیہ نے اپنے چرچ کی دوسری منزل کے وسیع و عریض مرکزی ھال کو،جمعہ کی نماز ادا کرنے، مسلمانوں کو دینے لگے۔ عام طور پر مسیحی لوگ سوٹ بوٹ پہن کر، ڈیسک ٹیبل پر بیٹھ کر چرچ میں عبادت کیا کرتے ہیں، اس لئے اوپر کے ھال سے بیٹھنے کے لئے رکھے گئے ڈیسک ٹیبل، نماز کے وقت میں ہٹائے جاتے ہیں اور چرچ کے ہر ھال میں آویزاں قد آدم یا اس سے بھی بڑے، مریم میری اور جیسز کے مجسموں کو، دوران نماز وقفے کے لئے،سفید پردے سے ڈھانپا جانے لگا۔یہی نہیں آج سے چھ سال قبل چرچ انتظامیہ نے، مسلمانوں کو نماز سہولیات عطا کرنے ہی کی خاطر، مرکزی ھال میں، متعدد کھڑکیاں اور وضو کی جگہ بنانے کے لئے چرچ کی بناوٹ کی تبدیلی پر لاکھوں ڈالر بھی خرچ کئے ہیں

اور یوں یہ کیٹیڈرل چرچ آف جان پال بوسنن شہر امریکہ ہی کا نہیں بلکہ پورے عالم کے “مسلم مسیحی اتحاد و محبت” کی نشانی کے طور مشہور ہونے لگا ہے۔ یہاں کے مسلمان بھی اس بین المذہبی رواداری کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، اپنے چندہ پیسے سے، ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہوئے، بوسٹن شہر کے غریب عیسائیوں کے لئے، ہراتوارچرچ میں اجتماعی کھانے کا نہ صرف انتظام کرتے ہیں، بلکہ وقت وقت کے ساتھ، چرچ انتظامیہ سے مل کر، بین المذاہب میل جول کو قائم رکھنے رفاعی پروگرام بھی منعقد کرتے رہتے ہیں

امریکی تاریخی بوسٹن چرچ میں موجود یسوع مسیع اور ماں مریم کے بڑے مسجموں کو، وقت نماز جمعہ سفید کپڑوں سے ڈھانک دئیے جانے والے اس عمل کودیکھ اور سن کر ہمیں بھی چمنستان بھارت کے، بعدآزادی ایسے ہی ایک، ھندو مسلم بین المذہبی رواداری درشاتے عمل کی یاد تازہ کرادی ہے۔ دراصل بعد آزادی ھند عالم کے ملکوں سے اپنے تعلقات استوار کرنے، دیگر ملکوں کے سربراہان کو بھارت بلایا اور بڑی گرم جوسی سے انکا استقبال کیا جاتا تھا اور چونکہ بھارت آزاد ہونے کے دو سال قبل ہی عالم یہود و نصاری عالمی سازشوں کے چلتے، عالم کےنقشے پر اسرائیل کا وجود بھی عمل میں آچکا تھا،

اور اسرائیل کے آس پاس موجود عالم عرب، اس اسرائیلی وجود سے نالاں، عالمی سطح پر تمام ممالک دو مختلف گروپ میں بٹ چکے تھے اس لئے آزاد بھارت کو بھی کسی ایک پالے میں جاتے ہوئے، اپنے مستقبل کا مفادتلاش کرنا تھا۔چونکہ آزادبھارت کے لیڈران مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، اس وقت کی فسطائی قوت،برطانیہ امریکہ کے خلاف نان ایلائین افریقی غریب ملکوں سے تعلقات قائم کئے ہوئے تھے اور عرب ممالک میں پیٹرول نکلتے پس منظر میں، ہر کوئی ان سے تعلقات قائم کئے، اس قدرتی معدنی دولت سے مستفید ہونے کی فراق میں رہتے تھے، اس لئے اس وقت کے، تقویت پاتے، عرب ملکوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے، عالم کا ہر ملک عربوں سے گرم جوشی والے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی ہوڑ میں لگے رہتے تھے

۔ مسلمانوں کے تاریخی مبارک شہر مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ، آدائیگی حج انتظامات کے سلسلے میں، ماقبل دریافت پیٹرول، اس وقت کی خستہ حال سعودی حکومت کو، نظام حیدر آباد ہر ممکنہ مالی تعاون دیتے رہتےتھے، نظام حیدر آباد اور والیاں سعودی عرب سے پہلے سے اچھے تعلقات قائم تھے۔ اور بھارت کے ذمہ داروں کا جھکاؤاسرائیل کے خلاف، عرب ممالک ہی کی طرف تھا، اس لئےان ایام عالمی سطح پر ایک طاقت ور اقتصادی ملک کی طرح قوت پکڑتی مملکت سعودی عرب سے دو طرفہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی لئے،نظام حیدر آباد کےاس وقت کے سعودی بادشاہ کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے، سعودی عرب شاہ سعود بن عبد العزیز کو آزاد بھارت کے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور انہیں متاثر کرنے کے لئے ہی، اس وقت کے اپنے کروڑوں ھندو زائرین کی وجہ سے ایک حد تک ترقی پذیر شہر بنارس کی گنگا ندی کے کنارے، شاہ سعودی عرب کے استقبال کی تیاریاں بھارت کے ذمہ داروں نے پوری کرلی تھیں۔

چونکہ ان ایام آمد ورفت و ملکی حالات سےواقفیت کی رو سے، تمدنی ترقی پزیری، موجودہ دور کی طرح اتنے عروج پر نہیں پہنچی تھی، اس لئے عین دورے سے قبل سعودی انٹیلیجنس کی پیش کردہ رپورٹ پر، اسلام دھرم کا پرچار کرنے والے، مسلم حکمران کی حیثیت سے، مندروں کے شہر میں آزادانہ نقل و حرکت سے گریز کرنے ہی کی خاطر، سعودی فرماروا کی طرف سےمندروں کےشہر بنارس کے بدلے،کسی اور مقام پر، بھارت سعودی مشترکہ ملاقات رکھنے کی استدعا کی گئی تھی، چونکہ ان ایام اچانک کسی دوسرے شہر، اتنے وسیع پیمانے پر، دو بڑے مملکت کی مشترکہ ملاقات انتظام کرنا مشکل مسئلہ تھا، اس لئے بھارتیہ حکومتی ذمہ دار کافی پریشان ہوگئے تھے۔ اور اسی لئے حکومتی ذمہ داروں نے، شاہ سعود کو، ایک حد تک مطمئن کرنے کا جو وطیرہ اس وقت نکالا، وہ یقینا اس وقت ھندو مسلم محبت بھائی چارگی کی لازوال مثال قائم ہو گئی تھی۔ اور جتنے دنوں والی سعودی عرب کا قیام بنارس میں تھا، اس وقت تک، شاہ سعود کی نقل و حرکت کی راہ میں پڑنے والے تمام بڑے اور اونچے مندروں کو وسیع و عریض چادروں سے ڈھانپنے ہوئے ،ان مندروں کو داعی دین اسلام سربراہ مملکت سعودی عربیہ کی چشم و کشاہ سے ماورا رکھا گیا تھا۔

یہ ہوتی ہے بین المذہبی رواداری، جس سے دو مذہب قریب آیا کرتے ہیں اور مختلف موقعوں پر اچانک اٹھنے والے معمولی اختلافات کے پیش نظر، آپس میں نفرت، بےگانگی و دراڑ طول پکڑا نہیں کرتی ہے۔ شاہ سعودی عرب نے مندروں سے اجتناب نظر کا صرف ڈھونک نہیں رچا تھا بلکہ اس وقت کےعرب حکمران واقعتا” پابند شریعت، اپنے حسن اخلاق سے داعی اسلام ہوا کرتے تھے۔ اسی لئےشاہ سعود علیہ الرحمہ نے، ان ایام تاج محل کی زیارت کرتے وقت، تاج محل تہ خانے کے،چھوٹے پستہ قدر در سے، جھک کر اندر جا، وفات پائے متوفی مغل فرمان روا شاھجہاں کے مزار، حاضری سے ہی گریز کیا تھا۔ اور یہی نہیں بھارت کے دورے بعد، پاکستان دورے درمیان، جب شاہی قافلہ مزار قائد پاکستان محمد علی جناح علیہ الرحمہ پر جانا ہوا تھا

تواس مزار زیارت کے موقع پر، شاہ سعود کا کہا وہ جملہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے لائق تھا کہ “کسی کی قبر پر مقبرہ درگاہ تعمیر کرنے کی اجازت اسلام میں گر ہوتی تو مدینہ منورہ موجود، گنبد خضراء میں مدفون سرور کائینات خاتم الانبیاء سرکار دو عالم صلی اللہ وعلیہ وسلم کی قبر اطہر پر، دنیا کی سب سے علی شان سونے کی اینٹوں سے ہم مقبرہ یا درگا بناچکے ہوتے” اللہ ہی ایسے تمام متوفی داعی اسلام حکمران کی مغفرت فرمائے، انہیں جنت الفردوس عطا کرے اور فی زمانہ ایسے بیسیوں مسلم ممالک پر، پابند شریعت حکمرانوں کا نزول لازمی بنائے

عالم کی سب سے بڑی جمہوریت ، چمنستان بھارت، اپنے گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکولر اثاث سے، ہزاروں سال قبل ہی سے محبت اخوت بھائی چارگی کی مثال قائم کئے ہوئے ہے۔ جس پر باہر سے حملہ آور حکمران مغل شاہان نے بھی، سر تسلیم خم کرتے ہوئے، اس گنگا جمنی سیکولر تہذیب کو آگے بڑھاتے ہوئے، اپنے 400 سالہ حکمرانی دوران بھی، اپنے دین اسلام کے عین اوصول مطابق اور مذاہب کے اقدار کو لائق تبریک سمجھتے ہوئے، بھارت میں سیکولر اثاث کو زندہ و تابندہ رکھا تھا۔ اور اس آزاد بھارت کے ہم کمزور و ناتواں 15 سے 20 فیصد آبادی پچیس تیس کروڑ مسلمانوں نے، باوجود ہم پرہوئےشدت پسند سنگھی ذہن ھندو اکثریتی مظالم کے باوجود،ایک حد تک اپنی طرف سے، ھندو مسلم بھائی چارگی کی فضاء کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے

۔ کیا ہم بھول گئے کیرالہ سیلاب مرنے والے ھندو مسلم عیسائی کثیر لاشوں کو پوسٹ مارٹم کرنے، علاقے کی جامع مسجد نے، نہ صرف اپنے دروازے کھولے تھے بلکہ کئی روز تک، ہر ممکنہ تعاون سے سیلاب زدگان کی بازآباد کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا تھا۔ کورونا کال کے ابتدائی دنوں میں، ہمارے ویر ھندو سمراٹ، ہنومان پرتیک 56″سینے والےوزیر اعظم مودی جی کے، بغیر تیاری کئے، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت 138 کروڑ بھارتیہ عوام کو، صرف چار گھنٹہ سے بھی کم وقت دئیے،اپنے نازی حکم نامہ سے، پورے بھارت کو گھروں میں قید بند کئے جاتے ہوئے، عالم کی سب سے بڑی جیل بنائے گئے

ناعاقبت اندیش فیصلےبعد، عدم سہولیات ریل و بس سفر، مختلف علاقوں کے کڑوڑوں پرواسی مزدوروں کے، اپنے دو پاؤں کے بھروسے ، ہزاروں کلو میٹر سفر پیدل ہی طہ کرنے کے انکے عملی اقدام سے، بدھال نڈھال ہوتے کروڑوں پرواسی مزدوروں کو، گذشتہ سال رمضان میں، خود دن بھر بھوکے رہ کر، بھارت کے مسلمانوں نے، سر راہ جو پانی جوش چپلیں اور دیگر ضروریات سفر کی سہولیات بہم پہنچائی تھیں بھارت کے 138 کروڑ ھندو مسلم سکھ عیسائی عوام، کیا انکے اس نیک اور اچھے عمل کو بھول پائیں گے؟اور یہ سب بھارت کے مسلمانوں نے، بھارت پر حکمران، شدت پسند ھندو ٹولے کے، اپنے بکاؤ بھونپو میڈیا کے ذریعہ سے، تبلیغی مرکز دہلی کے نادانستہ عمل کو بہانہ بنا، بھارت کے مسلمانوں کو بدنام و رسوا کرتے دانستہ سازشی تشہیری عمل باوجود کیا تھا

کیا بھارت کے اکثریتی ھندو برادری، کورونا کال فیس ٹو میں،ھندو ویر سمراٹ مودی یوگی کی نا اہلی کے باعث، حکومتی سرپرستی میں شرپسند سنگھیوں کے کورونا دوائیوں اور جان بچاتی آکسیجن کی تسکری کر، دولت سمیٹتے پس منظر میں، دیش کے مختلف حصوں پردیشوں شہروں کے مسلمانوں نے، اپنی مساجد و مدارس کو عارضی شفاخانوں میں تبدیل کرتے ہوئے، کورونا دوائی اور آکسیجن فری سپلائی کرتے ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں دم توڑتی انسانیت کو کیا بچایا نہیں تھا؟ کونکن مہا راشٹرا سمیت ملک کے کونے کونے کی مساجد کے دروازے، ضرورت مند غیر مسلم بھائیوں کے لئے کھول کر،انہیں فری کھاناکھلاتے ہوئے،

اسلام دھرم کی محبت اخوت کے پیغام کو، قریب بلا سمجھنے کی راہ ہموار کیا نہیں کی ہیں؟ اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب مرکز کے ساتھ ہی ساتھ دیش کے بڑے راجیوں میں سنگھی حکمرانی کی چھتر چھاپہ میں، دیش کے مسلمانوں پر، ماپ لنچنگ، بے گناہ گرفتاریوں سمیت، ہراقسام کی ظلم و بربریت ، مسلم اقلیت پر روا رکھی جارہی ہے۔ سرکاری دست شفقت میں، اپنےبکاؤ بھونپو میڈیا 24/7 مکرر نشریات سے, مسلم مخالف منافرت بھڑکائی جارہی ہے۔ اس موقع پر دیش کے اکثریتی ھندو طبقہ سے، جس میں یقینا ھندوؤں کا زیادہ تر طبقہ، بھارت کی پر امن فضا کو برقرار رکھنا چاہتا ہے, ہم معذرت کے ساتھ پورے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ پوچھنا چاہتے ہیں

کہ، ہزاروں سالہ گنگا جمنی بین المذہبی سیکیولر اثاث کو باقی رکھنے،اس پراگندہ ماحول میں ھندو اکثریت کو آج آٹھ کھڑے ہونے کا وقت کیا نہیں آیا ہے؟ “سب کا ساتھ اور سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” کے دل لبھاونے وعدے کے ساتھ مہان مودی جی نے، اس وقت کے ترقی پزیری کی طرف رواں دواں 2014 کے چمنستان بھارت کی باگ ڈور جو سنبھالی تھی، “اچھے دن” اور “سب کا ساتھ سب کا وکاس” تو دور کی بات، 2014 سے پہلے کے وہ خوشحال دن، یہ سنگھی مودی حکومت کیا برقرار رکھ بھی پائی ہے؟ دو کروڑ سالانہ نئی نوکریاں نئے روزگار دینے کے وعدے پر آئی اس حکومت کے 7 سالہ دور اقتدار میں،انکے انتخابی وعدے مطابق 7 سال میں 14 کروڑ نئے روزگار دینے کے بجائے، اپنی غلطی معشیتی پالیسئز سے پہلے سے روزگار پر رہے

30 کروڑ بھارت واسیوں کو اب تک بے روزگار کرچکی،اس سنگھی مودی یوگی حکومت کو آج یوپی پنجاب سمیت ایک دو ریاستی انتخابات میں ہار سے دوچار کرتے ہوئے، 2024 عام تک اس سنگھی مودی سرکار کو بھارتیہ سیاست سے اکھاڑ باہر کرنے کا کیا وقت ابھی نہیں آیا ہے؟ جو حکومت دیش واسیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں پوری طرح ناکام ہے، اور جس حکومت میں 2014 کے مقابلہ گیس سلنڈر،پیٹرول و دال چاول سمیت ہر اشیاء ضرورت، مہنگی تر ہوتے، غریب و متوسط طبقہ کے لئے جینا مشکل تر ہوگیا ہے

اور جو حکومت اپنی حد سے زیادہ خراب خارجہ پالیسی کے چلتے، اپنے اطراف کے کمزور و ناتواں چھوٹے ملکوں کو تک، بھارت کا دشمن بناتے ہوئے اور ہمہ وقت جنگ کے خطرات میں بھارت واسیوں کو گھرا چھوڑ چکی ہے کیا ویسی حکومت سے وقت رہتے چھٹکارا حاصل کرنا وقت کا اولین تقاضہ نہیں ہے؟ کانگریس مکت سرکار کا نعرہ لگانے والوں کو سنگھ مکت بھارت ہوتا دکھانے کا کیا وقت نہیں آیا ہے؟ کیا چمنستان بھارت میں پہلے والے، ھندو مسلم سکھ عیسائی ہم سب ہیں بھائی بھائی والے، محبت چین سکون و آشتی والے،گنگا جمنی مختلف المذہبی،سیکیولر اثاث ماحول کو واپس کیا لایا نہیں جاسکتا ہے۔واللہ اعلم بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں