مفاکات عمل 167

مفاکات عمل

مفاکات عمل

محمد اقبال بالم

ایک دن گاؤں کے مولوی نے بچے کو بلا کر کہا سب کے گھر سے کچھ نہ کچھ آتا ہے تم کبھی کچھ نہیں لاتے بچے نے سر جھکاتے ہوئے معصوم لہجیمیں کہا میں یتیم ہوں مولوی تو کیا ہوا میرے لئے کل کھیر پکواکر لانا بس! گھر جا کر بچے نے روتے ہوئے ماں سے کہا مولوی صاحب نے کہا ہے کہ کل کھیل لازمی پکوا کر لاناماں نے سر پر ہاتھ رکھ کرکہا بیٹا آپ کو تو معلوم ہے گھر کے کیا حالات ہیں بچہ رات بھریہی سوچتا رہا کہ کل کھیرنہ لے گیا تواستاد بہت مارے گا اسی خوف اور تھکاوٹ کی وجہ سے اسے بہت تیز بخار ہوگیا صبح مولوی نے دیکھا کہ میری کھیر اب تک نہیں آئی تو بچوں سے کہا جاؤ جاکر اسے زبردستی پکڑ کر لاؤ جب بچوں نے آکر بتایا کہ اسے تیز بخار ہے مولوی آگ بگولہ ہو کر کہنے لگا میں خود جا کر اس کی خبر لیتا ہوں

مولوی نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی جی کون ہیں اور کس سے ملنا ہے آواز سنتے ہی مولوی کے ہوش اڑ گئے اتنی پیاری آواز آج تک میں نے نہیں سنی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دوبارہ آواز آئی جی کون ہیں آپ مولوی لڑکھڑاتی آواز میں بولا جج جی میں خالد کا استاد ہوں اور اس کی عیادت کو آیا ہوں دروازہ کھلا تو مولوی کی نظر اس کے پاؤں پر پڑی تو شیطان نے فورن اس کے کان میں آ کر کہا کہ اتنے خوبصورت پاؤں تم نے گاؤں میں نہیں دیکھے ہوں گیجب مولوی کی نظر ہاتھوں پر پڑی تو شیطان نے کہا اتنے ملائم ہاتھ تم نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گیاس سے پہلے کے مولوی کی نظر اس کے چہرے تک جاتی شیطان مکمل طور پر مولوی کیدماغ پر سوار ہو چکا تھا جب کہ وہ سر جھکائے بڑے احترام سے کھڑی تھی

جب مولوی کی نظر چہرے پر پڑی توشیطان نے کہا یہ عورت نہیں جنت کی حور کھڑی ہے مولوی اپنے ہوش و حواس کھوئے ٹکٹکی لگا کر دیکھے جا رہا تھا اس نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خالد اس کمرے میں ہے مولوی کے سامنے پانی رکھتے ہوئے کہااستاد صاحب خالد کے ابو کو 4 سال ہو گئے ہیں فوت ہوئیان کی پنشن سے ہمارا گھر چل رہا ہے ہمارے ہاں روٹی کے علاوہ کچھ بنانے کی گنجائش نہیں مولوی صاحب بے ساختہ بولے کہ آج کے بعد اس گھر کاخرچہ میں اٹھاؤں گا خالد کی ماں نے کہا ہمارے پاس جو کچھ ہے ہم اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں آپ کی مہربانی آپ جا سکتے ہیں

مولوی صاحب چلے تو گئے لیکن اپنا دل وہیں چھوڑ گئے اب اسے چین کہا دوسرے دن پھر دوائیاں اور فروٹ اٹھائے پہنچیتو خالدکی والدہ نے بڑے پیار سے مولوی صاحب کو سمجھایا کہ خالد کے والد چار سال پہلے ہی اس دنیا فانی میں ہمیں اکیلا چھوڑ گئے ہیں ہم دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کا سہارا ہیں گاؤں میں ہماری بہت عزت ہے آپ کیوں ہمیں بد نام کرنے پر تلے ہوئے ہیں اب مولوی کی نظر خالد کی والدہ کے علاوہ اس زمین پر بھی تھی اگر خوبصورت بیوی ہاتھ میں آگئی تو زمین ہاتھ میں آ جائے گی

تھوڑی دیر بعد مولوی بولا کہ تمہارے اس مسئلے کا حل بھی میرے پاس ہے اگر ہم شادی کرلیں تو لوگ باتیں بھی نہیں کریں گے اور آپ بھی خوش رہیں گی اتنی بات کرنا تھی کہ گرجدار آواز میں جواب آیا آپ نکل جائیں ہمارے گھر سے آپ کو شرم آنی چاہیے میری عمر کی آپ کی اپنی بیٹیاں ہیں میں اس بات کا لحاظ کرتی ہوں کہ آپ میرے بیٹے کے استاد ہیں اس سے پہلے کہ دنیا آپ کا تماشا دیکھیے چلے جائیں آپ مولوی گھر آکر ساری رات یہی سوچتا رہا کہ خالد کی ماں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا آخر کار شیطان نے بدلہ لینے پر آمادہ کرلیا صبح خالد مسجد میں آیا تو مولوی نے جان بوجھ کر اسے ذلیل کرنا شروع کر دیا

اسے سپارے اٹھا لانے کو کہا تو خوف کی وجہ سے خالد کے ہاتھ سے ایک سپاہ گر گیا پہلے تو بچے کو اس نے چھڑی سے خوب مارا جب وہ جان چھڑاکربھاگا تو اس کے پیچھے لڑکے لگا دیے اور اعلان کر دیا کہ خالد نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ہے لہذا اسے آگ لگا کر زندہ جلا دو مولوی کا اعلان سنتے ہی گاؤں والے آپے سے باہر ہوگئے خالدکے گھر جمع ہوکر مطالبہ کرنے لگے کہ خالد کو ہمارے حوالے کر دو ہم اسے آگ لگا کردم لینگے اس کی والدہ رو رو کر کہتی رہی کہ میرا بیٹا بے قصور ہے بات کچھ اور ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی جب لوگ دروازہ توڑنے لگے تو خالد دیوار پھلانگ کر تھانے کی طرف بھاگا تھانے والے نے اعلان سن چکے تھے انہوں نے لڑکے کو تھانے میں بند کر دیاعوام نے تھانے دار سے کہا کہ لڑکا ہمارے حوالے کر دو ورنہ ہم تھانے کو آگ لگا دیں گے حالات بے قابو ہوئے تو پولیس والوں نے لڑکے کو دوسری طرف سے باہر نکال دیا

لڑکا گاؤں کے ساتھ چلنے والے روڈ پر پہنچا تو عوام نے پکڑ لیا جس ماں نے آج تک گھر کے باہر قدم نیں رکھا تھا اب ننگے پاؤں بال کھولے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی میرا بیٹا بے قصور ہے خدا کے لئے اسے مت مارو لیکن ظالموں نے پیٹرول ڈال کر آگ لگا دی ماں بیٹے کو بچانے کے لئے بھاگتی ہے تو بیٹا کھیتوں کی طرف بھاگتا ہے کہیں ماں کو آگ نہ لگ جائے گاؤں والے اس لیے خوش ہو رہے تھے کہ ہم نیاس کوآگ لگا کر نیکی کا کام کیا ہے جب بچہ ماں کی آغوش میں آخری سانس لے رہا تھا تو لوگ کہکہے لگا رہے تھے بچے کی ماں دھاڑیں مار مار کر کہ رہی تھی ظالموں تم نے میرے بے قصور بیٹے کو جلایا ہے

اللہ تعالی تم سے اس کا بدلہ لیگا اور پھر کچھ عرصہ بات اسی روڈ پر پٹرول سے بھرا ایک ٹینکر الٹا اور پیٹرول اسی جانب جا رہا تھا جہاں آگ سے لپٹا بچہ اپنی ماں کو بچانے کے لئے ادھر ادھر دوڑ رہا تھا گاؤں کی مسجد میں اعلان ہوا جس نے پیٹرول اکٹھا کرنا ہے اپنے برتن لے جائیں ابھی دو سو سے زائد لوگ پٹرول ڈال ہی رہے تھے کہ اچانک پیٹرول نے آگ پکڑ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کوئلہ ہو گئے جس میں مولوی کے بچے بھی تھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں