بادب بانصیب 182

بادب بانصیب

بادب بانصیب

تحریر/ محمد آصف معاویہ

اسلام دین فطرت ہے کیونکہ یہ خالق فطرت کا وضع کردہ نظام حیات اور دستور زندگی ہے، اس کے آداب بھی فطرتی ہیں، اور تمام انبیاء کرام علیھم السّلام نے ان کی پابندی اور پیروی کی اور چونکہ یہ شریعت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکمیل کے مراحل کو پہنچ چکی ہے، لہذا آداب فطرت بھی آخری مراحل کو پہنچ چکے ہیں۔سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم لوگوں کے لیے ایک باپ کی مانند ہوں ، اپنی اولاد کے لیے جس طرح خیر خواہی اور انکو زندگی گزارنے کے آداب واصول سکھانا باپ کی ذمہ داری ہے، اسی طرح تمہاری تعلیم و تربیت میرا کام ہے، اس لیے میں تمہیں سکھاتا ہوں ۔
ذخیرہ احادیث اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے استاد بھی ہیں، بمنزلہ والد بھی ہیں، نبی و رسول بھی ہیں، حاکم وقت بھی ہیں، مستقبل میں پیش آنے والے ہر ایک معاملے کو بخوبی سکھاتے اور سلجھاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام انفرادی و اجتماعی آداب امت کو سکھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللّٰہ تعالٰی نے مجھے علم عطاء کیا اور بہت اچھا علم عطاء فرمایا اور میرے رب نے مجھے تہذیب سکھائی اور بہت اچھی تہذیب سکھائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام آداب جو آپ کو سکھائے گئے تھے اپنے صحابہ میں منتقل فرمائے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کا انتہا درجے ادب کرتے تھے، وہ کامیابی کے راز کو جان گئے تھے کہ جو کچھ بھی ملے گا ادب ہی کے ساتھ ملے گا، بے ادب اور گستاخ کو سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
صحابہ نے اس کی اعلٰی مثالیں قائم کیں چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبیلوں میں مصالحت کی غرض سے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے

تو نماز کے وقت لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آگے کر دیا کہ آپ نماز پڑھائیں ابھی اقامت ہی کہی گئی تھی کہ حضور تشریف لے آئے حضرت ابوبکر صدیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود پیچھے ہٹ گئے آپ نے نماز پڑھائی اور پوچھا ابوبکر تم نے نماز کیوں نہ پڑھائی؟ تو حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے مناسب نہیں کہ آپ کی موجودگی میں آگے کھڑا ہو۔
حضرت امام مالک حدیث کا درس دے رہے تھے کہ چہرے کا رنگ زرد ہو رہا تھا جب آپ حدیث کے سبق سے فارغ ہوئے تو شاگردوں نے پوچھا کہ حضرت آپ کے چہرے کا رنگ کیوں زرد ہو رہا تھا ؟ فرمایا بچھو نے کئی بار کمر پر کاٹا لیکن حدیث کی عظمت و شان کی وجہ سے ضبط کیے رکھا ۔
امام مالک رحمہ اللہ مدینہ منورہ میں کبھی گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے تھے، فرماتے تھے کہ شرم آتی ہے کہ مدینہ منورہ کو اپنے گھوڑے کے سموں سے روندوں، یہی ادب ان حضرات کو کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچا گیا۔
دو قسم کے لوگ انسان کی زندگی کو سنوارنے، اسے کامل و مکمل بنانے، اور صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات بنانے میں پورا کردار ادا کرتے ہیں۔
1۔ والدین۔ 2۔ اساتذہ۔
دونوں کا ادب بجا لانا بے حد ضروری ہے اور انکی گستاخی دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے، ہمیں بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہر اس چیز کا ادب لازم ہے جو حصول علم میں معاون و مدد گار ثابت ہو، کتاب، کاغذ، قلم ، رحل، بستہ، وغیرہ، کیونکہ جس طرح استاد علم کا منبع ہے اسی طرح یہ آلات بھی معین و مددگار ہیں۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک استاد کو اس لیے تھپڑ مارے جا رہے تھے کہ اس نے بچے جو ڈانٹا تھا، استاد کی اس غلطی کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیکر اسی بچے سے اس کے منہ پر تھپڑ لگوائے گئے اور گندی گالیاں دی گئیں۔
جبکہ استاد عمر رسیدہ تھا نہ اس کے عہدے کا اور نہ ہی اس کی عمر حتیٰ کہ اس کی داڑھی کے سفید بالوں تک کا لحاظ نہ رکھا گیا اس قوم کی پستی، تباہی، ذلت و رسوائی کا اس بڑھ کر اور کیا سبب ہو گا جہاں استاد کو نعوذباللہ ملازم اور نوکر سمجھا جائے، اور اسے آنکھیں دکھائی جائیں، چوکوں چوراہوں میں گریبان پکڑے جائیں، حتیٰ کہ حکومتی ادارے بھی بعض اساتذہ کو ہتھکڑیاں پہنا کر لے جاتے ہیں جبکہ بیوروکریٹس اور تماش بینوں کو پروٹوکول میں لے جایا جاتا ہے۔
یہ بے ادبی ہمیں من حیث القوم تباہی کے دہانے پر لے جائے گی استاد کا ادب ایسا ہو جیسا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے آزاد کر دے چاہے تو بیچ دے۔
اللّٰہ تعالٰی ہمیں اساتذہ، والدین کا ادب بجا لانے کی ےوفیق عطاء فرمائے۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں