’کتاب میں اور میرا گائوں کی تقریب رونمائی 169

’کتاب میں اور میرا گائوں کی تقریب رونمائی

کتاب میں اور میرا گائوں کی تقریب رونمائی

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

جو قومیں اپنی،تاریخ، ثقافت ،تہذیب و تمدن، کو بھلا دیتی ہیں یا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں،یا پھر تباہ برباد ہو کر پسماندگی کی زندگی گزارتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ثقافت،تہذیب وتمدن بارے اپنی قوم کو گاہے بگاہے مختلف ذرائع سے آگاہ کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کواپنے ماضی کا پتہ ہو اور وہ اپنی آنے والی نسلوں کو اس بارے آگاہ کر سکیں، اس کے لئے کوئی ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتا ہے اور کوئی اسے لفظوں کی زبانی بیان کرتا ہے،اور کئی لوگ اسے قلم سے تحریر کرکے شائع کرا کر اسے آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کر لیتے ہیں، ایسے لوگوں کانام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے،

اسی نوعیت کی کو شش انکم ٹیکس کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہونے والے سرگودھا کے رہائشی جاوید چیمہ نے کتاب ’’میں اور میرا گاوں‘‘ لکھ کر کی، کتاب کے راقم نے کتاب میں اپنے گائوں کا احاطہ کیا، اور اس کی تاریخ کو لفظوں کی لڑی میں پرو کر کتاب کی شکل میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کیا ہے، یہ پاکستان کی پہلی کتاب ہے جس میں کسی گائوں کی تہذیب و ثقافت، رہن سہن گائوں کے ماضی اور مستقبل پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے، کتاب کی تقریب رونمائی گزشتہ روز سرگودھا میں ہوئی جس سے اظہار خیال کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس پنجاب ،دانش ور اور نقاد ذوالفقار احمد چیمہ نے کہا ہے کہ تحریر و تقریر میں لفظوں کی حرمت کا احساس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قلم کی عزت و تکریم سے ہی ہم شعوری انقلاب کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔

تصنیف و تالیف کی وجہ سے علم و ادب اور تہذیب و ثقافت میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ انکم ٹیکس کمشنر (ر)جاوید احمد چیمہ کی کتاب ’’ مَیں اور میرا گائوں‘‘ پْر خلوص جذبوں کی آئینہ دار ہے۔ علاوہ ازیں معروف اینکر ، کالم نویس ، تجزیہ نگار اور صحافی حبیب اکرم مرزا، ریٹائرڈ آئی جی پولیس موٹر وے ظفر عباس لک، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، نصیر احمد چیمہ ، شمس نوید چیمہ ، ڈاکٹر عمر حیات بْچہ ، ڈاکٹر جاوید سلیم، نوخیز رسول ، آفتاب ملک اور فاروق گوندل نے بھی کتاب اور اْس کے مصنف کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ذوالفقار احمد چیمہ نے مزید کہا کہ جاوید احمد چیمہ میرا ہم جماعت ہے۔ اْس کی شخصیت میں خلوص اور محبت کا عنصر موجود ہے۔ اْس نے 36جنوبی سرگودھا کے خدوخال نمایاں کرنے کے لیے اپنے جذبات و احساسات سپردِ کتاب کر دیے ہیں۔ 36

جنوبی کے ذرخیز اذہان اس ایک کتاب میں پہچانے جا سکتے ہیں۔ حبیب اکرم مرزا نے کہا کہ کتاب لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ وسعتِ مطالعہ اورو سیع الظرف انسان ہی اپنی جنم بھومی کے بارے میں خیالات کو یکجا کرسکتا ہے۔ کتاب کے راقم نے دیہی زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ 36جنوبی کے عوام نے تحریکِ پاکستان اور تشکیلِ پاکستان میں جو کردار ادا کیا اْس کا بھرپور تذکرہ کتاب کی زینت ہے۔ کاروانِ زیست کے ارتقائی سفر میں ایسی کتب جادۂ منزل ثابت ہوتی ہیں۔ جاوید احمد چیمہ نے چشمِ قلم سے اپنی یادوں کو سپردِ قرطاس کر دیا ہے۔ مہر ظفر عباس لک نے کہا کہ جاوید احمد چیمہ محبت بھرے دل کا مالک ہے۔

اْسے دوستی نبھانے کا فن آتا ہے۔ اْس نے کتاب میں اپنے تمام دوستوں اور محسنین کا تذکرہ کر کے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ گائوں کے بارے میں شائع شدہ یہ کتاب دوسروں کے لیے باعثِ تقلید ہے کہ وہ مختلف چکوک کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، نصیر احمد چیمہ ، شمس نوید چیمہ ، ڈاکٹر عمر حیات بْچہ ، ڈاکٹر جاوید سلیم اور نوخیز رسول نے ’’مَیں اور میرا گائوں‘‘ کے نمایاں خدوخال پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ جاوید احمد چیمہ کی وجہ سے ان کے گائوں کی تاریخ محفوظ ہو چکی ہے۔

اْن کے سادہ اسلوب نے کتاب کو مفید تر بنا دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے گائوں کے اہم واقعات ، گھوڑی پال سکیم کے تحت آباد ہونے والے احباب ، مختلف برادریوں کی اہم شخصیات اور وہاں کی رواں دواں زندگی اور میلوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کتاب کے مصنف نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، اور تقریب میں موجود اپنے دوستوں سے وابستہ واقعات پر روشنی ڈالی۔ اور اْن مراحل کا بھی تذکرہ کیا جو کتاب لکھتے ہوئے انہیں در پیش آئے۔الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات نے نوجوان نسل کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، اور ہماری قوم بالخصوص نوجوان نسل کی اکثریت اپنے ماضی سے بے خبر ہے،

جو کہ آنے والے وقت میں لمحہ فکریہ ہو گا؟ راقم نے کتاب میں اور میرا گائوں لکھ کر دیہی تاریخ اور ثقافت کا ایک باب محفوظ کیا ہے، مصنف نے اہل سرگودھا سمیت ملک بھر کی عوام کو باور کرایا ہے کہ انہیں اپنے اپنے شہروں، دیہی علاقوں کے تہذیب و تمدن، ثقافت اور رہن سہن و ماضی کے حالات و واقعات کو کتابوں و کتابچوں کی شکل میں تحریر کر کے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کرنا چاہئے، تا کہ آنے والی نسلوں کو پتہ چل سکے کہ ماضی میں ان کے آبائو اجداد کا رہن سہن ، ثقافت، تہذیب و تمدن کیسا تھا،

اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والے وقتوں میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نوجوان نسل کو اس حد تک دبوچ لے گا کہ اسے اپنے ماضی کے بارے میں کوئی خبر نہ ہو گی، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی یلغار ایسی قوموں کا تہذیب و تمدن، رہن سہن بدل کر رکھ دے گا؟ اس لئے حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ اپنی ثقافت، تہذیب، و تمدن، رہن سہن اور ماضی کو محفوظ کرنے کیلئے ہر علاقہ کے ذی شعور لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اپنے علاقہ کے ثقافتی ورثہ کو تحریری یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے محفوظ کرنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں