اجتماعی شادی،سنت پر عمل پیرائی کے لئے مستسن قدم 173

اجتماعی شادی،سنت پر عمل پیرائی کے لئے مستسن قدم

اجتماعی شادی،سنت پر عمل پیرائی کے لئے مستسن قدم

تحریر:نقاش نائطی
۔ +966562677707

اسلام نے شادی کو نہایت آسان اور سلیس اور فسخ نکاح یا طلاق کو انتہائی پیچیدہ بنایا تھا لیکن ہم آج کے جدت پسند مسلمانوں نے، اسلام کے اسی آسان نکاح یا شادی کو، منگنی، منھ دکھائی ، ہلدی کی رسم، جوڑے جھیز کی غیر اسلامی رسوم، اور سب سے اہم غیر شرعی برات کی دعوت طعام کا انتظام لڑکی والوں پر ڈالتے ہوئے، مختلف رسوم و رواج کے نام سے، کسی غریب مفلس کو، اپنی بیٹی کی شادی کرنا ایک عذاب گویا بنایا ہوا ہے۔ وہیں پر، غیر اسلامی معاشرے میں، نکاح بعد نساء کو ایک زر خرید، بے وقعت غلام بناکر رکھا جاتا تھا اور ازدواجی بندھن ایک حد تک ناکام رہنے کے باوجود، مرد آہن تو کھلے عام عیاشیاں کرتا پھرتا تھا

لیکن نساء کو گھٹ گھٹ کر مرنے ہی کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا، اسلام نے،کسی بھی شادی کے ناکامیاب ہونے کی صورت، دونوں میاں بیوی کو عزت و احترام کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، دونوں جدا جدا زندگیوں کو آزادانہ جینے کی راہ سمجھانے کی خاطر طلاق کا نظم اسلام میں روشناس کرایا تھا۔اور مرد کے مقابلہ بنسبت نساء، شدت جذبات سے سرشار، اپنے شوہر سے چھوٹی چھوٹی بات پر راہ فرار اختیار نہ کرلے، اسے خود سے شوہر کو طلاق دینے کے بجائے، قاضی شہر یا دارلقضی کے واسطے سے خلع لینے کی راہ سجھائی تھی۔

اسلام ، جس نے نکاح کو آسان بنایا تھا اور طلاق یا خلع کو مشکل تر،آج مسلم معاشرے میں جہاں مختلف رسوم ورواج کی وجہ سے نکاح مشکل تر ہوگیا ہے، وہیں دو شادی شدہ جوڑوں کے درمیان طلاق یا فسق نکاح اتنا ہی آسان بنادیا گیا یے۔ حتی کے شدت جذبات کی ماری نساء کی طرف سے فسخ نکاح یا خلع کو جتنا دشوار بنایا گیا تھا فی زمانہ دارالقضاء سے، طلاق کے معاملوں میں نساء کی طرف سے فسخ نکاح یا خلع کا رواج عام ہوتا دیکھ، معاشرے میں پنپنے والے اس رجحان کو اسلامی معاشرہ کے لئے، تباہ کن تصور کیا جارہا ہے۔
اسلامی معاشرے میں، جوڑے کی رسوم سمیت جہیز کے ساتھ ہی ساتھ، نساء کی طرف سے ولیمہ انتظام کی غیر اسلامی روایات کو پس پشت رکھ، شادی کو آسان و سلیس بنانے کی خاطر اجتماعی شادی کو اسلامی معاشرے میں رواج دینے کی بڑی فکریں تدبیریں کی جاتی جاتی رہی ہیں لیکن ایک برائی کے سدباب کے لئے، دوسری اس سے بھی بڑی برائی کے ظہور پذیر ہونے کے خوف سے،

ارباب حل و عقل وعرفان مسلم معاشرہ اس سمت ایک حد تک خاموش پائے جاتے تھے۔ خصوصا غرباء و مساکین کی اجتماعی شادی کے دوران سیاست دانوں کی طرف سے دولہا دلہن کو معمولی تحفہ تحائف دیتے ہوئے، عکس بندی کے بہانے عوامی سطح پر انکی تضحیک ہوتے پس منظر میں اور اخباری تشہیر سے معاشرے میں ہوتی رسوائی کے پیش نظر، مسلم معاشرے میں، اس مشترکہ شادی نظم کو کبھی تقویت ہی نہیں مل پائی تھی۔ جبکہ معشیتی طور انتہائی پس ماندہ مسلم معاشرہ اجتماعی سنت شادی کا سب سے بڑا مستحق تھا۔ مسلم معاشرہ کے مقابلہ آغیار غیر مسلم معاشرہ میں خصوصا گجراتی تاجر برادری میں،

بڑے بڑے روساء اپنی چہیتی اولاد شادی خانہ آبادی کے موقع پر ، معاشرے کے ملفس بیسیوں جوڑوں کی شادی اجتماعی طور منعقد کراتے ہوئے، اپنے معاشرے میں شادی کو آسان تر بنانے کی ایک حد تک کوشش کرتے رہے ہیں۔ خصوصا ایک گجراتی ھیرے کے تاجر کا اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کے موقع پر غرباء ومساکین کے بیسیوں جوڑوں کی اجتماعی شادی کر، ہر شادی شدہ جوڑے کو انکے بنائے نئے ہاؤسنگ کالونی میں ایک متوسط طبقہ کا رہائشی گھر ھدیتا” دیتے ہوئےاجتماعی شادی کا ایک انوکھا باب شروع کیا تھا

الحمد للہ فثم الحمد للہ اہل نائط بھٹکل کے لبیک اسپورٹس و رفاعی ایسوسیشن نے علماء کرام کی سرپرستی میں عنقریب شہر بھٹکل میں ایک اجتماعی شادی کا اہتمام کرنے کا اعلان جو کیا ہے یقینا وہ ایک مستحسن قدم ہے۔ اہل عرب نائطہ قبیلے کا مسکن یہ علاقہ بھٹکل الحمدللہ مشرق وسطی ھندو پاکستان بنگلہ دیش کے مسلم معاشرے میں پائے جانے والی کئی ایک غیر اسلامی،رسوم ورواج سے پاک شادی خانہ آبادی بھٹکل و اطراف بھٹکل مسلم معاشرے میں عملا” نافذ العمل ہیں۔ پھر بھی نام نمود پر خرچ کئے جانے والے اخراجات کی ایک لمبی فہرست اب بھی معاشرے میں جلا بخشی جارہی ہے امید ہے علماء کرام کی سرپرستی اور شہر کے

مرکزی اداروں کی سرپرستی میں منعقد ہونے والی،ایسی اجتماعی شادیوں سے رہی سہی شادی کی کمیاں خامیاں بھی جڑ سے ختم ہوجائیں گی۔ اس کی ہم توقع کرتے ہیں۔ اس اجتماعی شادی کی اہمیت و خصوصیت اس اعتبار سے جداگانہ ہے کہ یہ صرف مفلس و نادار غرباء کے جوڑوں پر مشتمل شادی نہ ہوگی بلکہ مسلم معاشرے کے معتدل گھرانے کے افراد، اپنے بچے بچیوں کی شادی، اپنے مالی تعاون کے ساتھ، اجتماعی ادارے کے ماتحت منعقد کرتے ہوئے، اسی اجتماعی مصارف میں متعدد غریب و مفلس جوڑوں کی، اسی شان و شوکت کے ساتھ شادی خانہ آبادی کرنے کا فیصلہ کئے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے اس مبارک فیصلے کو وہ تقویت عطا کرے اور زیادہ سے زیادہ متوسط و امیر گھرانوں کو، اس مبارک شادی میں شرکت کرتے ہوئے،

انیک غریب و مفلس جوڑوں کی بھی اسی اہتمام وقار ومنزلت کے شادی خانہ آبادی کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اس خوشی کے موقع پر ایک نامعلوم قومی تاجر نے شہر بھٹکل کے مرکزی رفاعی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے ہر شادی شدہ جوڑے کو ، دس ہزار روپیہ نقد بطور ھدیہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ امید ہے لبیک نوائط ایسوسئیشن مجلس اصلاح وتنطیم بھٹکل کے تعاون سے منعقد ہونے والی اس اجتماعی شادی سے زیادہ سے زیادہ مسلم جوڑے سنت مطابق اپنا گھر بساتے پائے جائیں اور مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی ایسی اجتماعی شادیوں کو زیادہ سے زیادہ پذیرائی نصیب ہووما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں