بســـــاطِ زیــــست کــا شــــاہیــــن
تبصرہ نگار۔۔ شاہ روم خان ولیؔ
بساطِ زیست” جناب ارشد محمود ارشد کا چوتھا شعری مجموعہ ہے 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب، حرف اکادمی نے دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع کی ہے۔ جس میں موجود شاعری آنکھوں کے دوش پر سوار ہو کر دل و دماغ تک رسائی حاصل کر رہی ہے۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود شاعری کا ترجمان اور عکاس ہے۔
بساطِ زیست پہ اُس نے مجھے یوں رکھا ہے
کہیں ہوں میں جو پیادہ تو شہسوار بھی ہوں
جناب ارشد محمود ارشد نے اپنی شاعری میں کلاسیکی روایت کی پاس داری کے ساتھ ساتھ ترقی پسندی اور جدیدیت کے رجحانات و اثرات کو بھی قبول کیا ہے۔ کلاسیکی، ترقی پسندی اور جدیدیت کی حسیں آمیزش سے اُن کی شاعری کا ایک منفرد رنگ و آہنگ وجود میں آیا ہے۔ ان کے ہاں تخلیقی توانائی اور وفور ہے اور فکری تازگی بھی ہے۔ ان کے ہاں جمود و تعطل نہیں، بلکہ ایک تحرک و تموج ہے۔ ان کا زاویۂ نظر بہت وسیع ہے. جناب ارشد کے کلام میں تفکر و تعقل، طنز و مزاح، حسن و عشق کی داستاں، عصری مسائل و موضوعات کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے رموز و اسرار کی جلوہ گری بھی ہے۔ اُن کی شاعری میں عمدہ تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کا بھی ہنر مندانہ استعمال ہوا ہے۔
زمیں کی کوکھ سے پہلے شجر نکالتا ہے
وہ اُس کے بعد پرندوں کے پَر نکالتا ہے
ارشد محمود کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں آسان اور عام فہم الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ان کی بیش تر غزلیں سہلِ ممتنع کے دائرے میں آتی ہیں۔ان کی شاعری اپنے اسلوب و اندازکی دل کشی و رعنائی، فکری بلندی، فنی پختگی اور خیالات کی ندرت و جدت کی وجہ سے معاصر شعری منظر نامے میں منفرد مقام کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں بھر پور عصری حسیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے نظم و غزل دونوں صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے اور دونوں اصناف میں قابل قدر تخلیقات موجود ہیں، لیکن طبعی طور پر ان کا میلان غزلوں کی طرف زیادہ ہے۔ یعنی زلفِ غزل کی اسیری انھیں زیادہ راس آئی ہے۔
شبِ طویل بھی کاٹی ہے خود کلامی سے
کوئی شریک مرے رتجگے میں تھا ہی نہیں
غزل ایک زمانے تک صرف عشق و عاشقی کے بیان تک محدود رہی۔ لیکن بعد میں اس کے موضوعات میں وسعت آتی گئی۔ شاعروں نے اس کی رمزیاتی لفظیات کا سہارے سے غم جاناں سے لے کر غم روزگار تو کیا تصوف اور سیاسی منظر کشی کو بھی شعری سانچے میں ڈھال دیا۔ ارشد محمود نے بھی اس روایت کو اپنایا۔
مداری بس تماشا کر رہا تھا
مگر بچہ جمورا مر رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
مرے اندر کا مجنوں مر چُکا تھا
آُسے مجھ سے محبت ہو رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی اور طلب پانیوں میں لے آئی
مرا خیال کسی جل پری میں تھا ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔
دل نے برسوں عذاب جھیلے ہیں
ہم نے کی تھی خطائیں لمحوں کی
جناب ارشد نے چھوٹی اور طویل ہر قسم کی بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی غزلیات کا یہ مجموعہ ان کے احساسات کا اظہار ہے۔ انہوں نے زندگی کے جس موڑ پر جیسا محسوس کیا اس کو شعری پیرایہ اظہار میں قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔
بساطِ زیست میں شامل اُن کی دو نظمیں دیکھیے اور اُن کی نظم کا ذائقہ بھی محسوس کیجیے
؛؛قیدی؛؛
سنو لڑکی
محبت کے سفر میں تو
کوئی منزل نہیں ہوتی
کہ تپتے ریگزاروں میں
ہمیشہ چلنا پڑتا ہے
یہ ایسا کھیل ہے جس میں
کہیں بھی جیت ہوتی ہے
نہ کوئی مات ہوتی ہے
فقط جو قرب پانے کو
محبت نام دیتے ہیں
بہت نادان ہوتے ہیں
سنو لڑکی ¡
تمہیں تو بنتِ حوّا کی
نظر آتی ہے مجبوری
تمہیں کیسے بتاؤں میں
کہ میں جو ابنِ آدم ہوں
مجھے بھی باندھ رکھا ہے
انہیں رسموں رواجوں نے
کہ جن کی قید میں تم ہو
انہی کا میں بھی قیدی ہوں
۔۔۔۔۔
ابنِ آدم
کوئی جب پوچھتا ہے یہ
شیعہ ہو تم یا سنی ہو
وہابی ہو کہ دیوبندی
بتاؤ کونسے فرقے سے نسبت ہے
نجانے کیوں مجھے اک پل
سجھائی کچھ نہیں دیتا
میں گہری سوچ میں تب ڈوب جاتا ہوں
مرے اندر سے اک آواز آتی ہے
سنا ہے تم نے بچپن سے
کہ تم تو ابن؍آدم ہو
تو پھر سچ سچ بتاؤ نا
مسلمانوں کے فرقے کیا
کہ ہندو ، سکھ ، نصاریٰ
پارسی تک بھی
جہاں میں جتنے انساں ہیں
مرے بابا کے بیٹے ہیں
یہ مانا شکل و صورت میں
ذرا سے مختلف ہونگے
رگوں میں دوڑتا ہے جو
لہو تو ایک جیسا ہے
سبھی اولادِآدم سے
کہ جس میں آدمیت ہو
مری تو اس سے نسبت ہے
اسی سے خون کا رشتہ
یہی سچ ہے
کہ جب میں ابنِ آدم ہوں
مرا مذہب وہی ہے جو
مرے بابا کا مذہب ہے
۔۔۔۔۔
امید کی جاتی ہے کہ ان کی بساطِ زیست کو ادبی حلقوں میں پذیرائی ملے گی۔