ملک میں پائی جانے والی بے چینی کا حل 280

ملک میں پائی جانے والی بے چینی کا حل

ملک میں پائی جانے والی بے چینی کا حل

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

ایک اچھی ریاست کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی چیخ سننے کے بعد وقت ضائع نہ کرے ، جس سے جہاں بچہ خاموش ہوگا ۔وہاں ریاست بھی پرامن ہوگی ۔اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں ریاست کے نام پر ہر حکومت کا رویہ مختلف علاقوں اور زبان بولنے والوں کے ساتھ بہت ہی مختلف ہوتاہے۔یعنی ریاست کے خلاف لڑنے والوں کی کیٹگریاں مختلف ہوتی ہیں ایک کو ناراض تو دوسرے کو دہشت گرداور مذہبی انتہا پسند وغیرہ وغیرہ کا خطاب دیا جاتا ہے ۔یہ ایک علحیدی بحث ہے اس وقت ہم پشتون تحفظ موومنٹ اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ رویہ کا جائزہ اگر لیں تو یہ تضاد واضح ہوجائیگا ۔ تاہم اس وقت ایک کالعدم تحریک کی جانب سے اسلام آباد کی جانب بڑھے جارہے مارچ کا تذکرہ کرینگے

جسمیں متعدد قیمتی جانوں کا ضائع ہوا ہے ۔اس کے باوجود حکومت نے مقابلہ کرنے کیلئے پولیس اہلکاروں کو غیر مسلح کرکے ان پر تشدد مارچ کوروکنے کی حکمت عملی بنائی ہے اور مارچ روکنے کا نام نہیں لے رہا ہے مارچ کے حوالے سے ملک میں اعلی سطح کے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں جسمیں انتہائی سخت قسم کے بیانات جاری ہوئے ہیں ۔ مگر اب تک نرمی بھرتی جارہی ہے ۔ جو ایک احسن اقدام ہے ۔اس مارچ میں ہلاکتوں کے باوجود حکومت اورپابند سلاسل اس تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کے ماہین ہونے والی بات چیت کے متعدد دور فی الحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس معاملے پر وفاقی وزا ایک پیج پر نہیں ہیں، ان کے بیانات میں واضح تضاد اور ہم آہنگی کا فقدان ہے۔مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف تجاویز دی جارہی ہیں۔

کیونکہ بقول وفاقی وزیر داخلہ کے جو انتہائی خطرناک بات ہے کہ اس دھرنے نے ملک کے دفاعی شہ رگ مفلوج کیا ہے واضح رہے افغان فاتحین نے جی روڈ پورے ہندوستان کو فتح کرنے اور قابو میں رکھنے کی بنائی تھی اس دھرنے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کا یہ کہنا کہ جو معاہدہ ماضی قریب میں کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ کیا گیا تھا اس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو کوئی علم نہیں اس لیے اب یہ ملبہ عمران خان پر نہیں ڈالنا چاہیے۔جو کہ ایک حیران کن بیان ہے ،اس کے جواب میں انتہائی پرپشان مگر سلجھے ہوئے سیاستدان اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے

کہ تحریک لبیک پاکستان والے ہمارے بھائی ہیں اور ہم اپنے بھائیوں سے لڑنا نہیں چاہتے۔اس بیان کی وجہ یہ ہے کہ شیخ رشید کو اپنا ووٹ بنک سب سے زیادہ عزیز ہے۔جبکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بیان بہت ہی مختلف ہے ان کا یہ کہنا کہ کالعدم ٹی ایل پی ایک کالعدم جماعت ہے اور سعد رضوی کے خلاف 98 مقدمات ہیں، اب تک متعدد پولیس والے شہید ہوچکے ہیں، اس لیے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا پڑے گا۔ ان کے بیان کا اشارہ یہ کہ وہ حکومت میں شامل اعتدال پسند قوتوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ، علاوہ ازیں وہ اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ فیصل واوڈا کا موقف اور اظہار خیال کا جائزہ لیا جائے

تو صاف ستھری چاپلوسی ہے جس کا مقصد یہ کہ وزیر اعظم اور اس کے ارد گرد موجود کو خوش رکھنا اور ان کی ہمدردی حاصل کرنا ہے۔ واضح رہے کہ وہ ماضی میں بھی بوٹ لائیو شو میں پرستش کے لئے لائے تھے ، جس کے بعد کافی لے دے ہوئی اورچینل مالکان کو بھی اس عمل سے کافی پریشانی ہوئی کابینہ کے ان تین اراکین کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں کابینہ ایک پیج پر نہیں وہاں ریاست بھی حقیقت میں ایک پیج پر نہیں ہے اور نہ ہی ادارے اس حوالے سے صحیح رپورٹیں پیش کررہی ہیں ۔اس وقت سب سے بڑا کام یہ ہو رہا ہے کہ میڈیا کو اپنے کام سے روکنے کا عمل بھی جاری ہے ۔دیکھا جائے

تو وفاقی وزراء کے مختلف بیانات سے ثابت ہوتا ہے، کہ وزیر اعظم انتہائی بے خبر اور معاملات سے الگ تلگ ہیں ۔یہ ان کے خلاف مستقبل قریب میں پیش ہونے والے چارج شیٹ کا ایک حصہ ہوسکتا ہے ، وزیر اعظم کے بارے میں یہ آرا ہوگی تو پھر سمجھا جاسکتا ہے کہ اور صورتحال کیا ہوگی ۔ایسے میں اگر پرکھا جائے تویہ بات قابل غور ہے، کہ ماضی میں کالعدم ٹی ایل پی کو کن قوتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ وزرا ء ان قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ وزراء ان سب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،جو کالعدم ٹی ایل پی کے خلاف سخت ایکشن چاہتے ہیں۔ مگر ایسا نا ممکن نظر آرہا ہے

کیونکہ اس وقت متضاد بیانات نے عوام کو حکومت کی ناکامی کا پیغام دے دیا ہے ۔ جبکہ اس اقدام سے اس کالعدم جماعت کے کارکنوں کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں ۔ جس سے یہ بھی محسوس ہوتا کہ شاید یہ بیانات اسی لئے داغے جارہے ہیں۔جس نے پنجاب حکومت کو مفلوج کر دیا ہے ،وہاں پر قانون کی رٹ ختم ہو چکی ہے ۔جلد ہی اسلام آبادمفلوج ہونے جارہا ہے ، جس سے تباہ حال معیشت کو مزید دھچکا لگے گا، جس سے کاروباری زندگی بھی بری طرح متاثر ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ پشتون علاقوں میں یہ پیغام پہنچا رہا ہے

کہ حکومت کا پشتونوں اور دیگر کے ساتھ رویہ انتہائی مختلف ہےجس کی وجہ سے فیڈریشن کی کمزوری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں پیدا شدہ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ ریاست فوری طورپر آگے آئے اور ایک ایسی حکومت کیلئے ماحول سازگار بنائے جو ریاست کو مشکلات سے نکالنے ، ان کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیےعمرانی معاہدے کو قابل قبول بنانے میں کردار ادا کرے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں