قوم و ملت کی ترقی، اعلی تعلیم میں ہی مضمر ہے 146

اس میں کس کی کتنی حصہ داری ہے؟

اس میں کس کی کتنی حصہ داری ہے؟

تحریر: ​نقاش نائطی
۔ +966562677707

اس عالم میں اپنے طور دکھی انسانیت کی خدمات، اپنے محدود اختیارات باوجود،ہر کوئی کیا کرتا ہے۔ اس سال بی جے پی حکومت کی طرف سے ھرےکلا ھجبہ کو پدم شری ایوارڈ جو دیا گیا ہے وہ ایک پھل فروش جو خود کسم و پرسی کی حالت میں رہتے ہوئے بھی، انسانیت کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے پرائمری تعلیم کو آگے بڑھانے اس کی خدمات پر دیا گیا ہے۔ آج سے بیس ایک سال قبل ایک ایسے ہی ہمارے ہم عصر رضاکار نے کسی مفلس بچی کے قلب کے آپریریش کے لئے ہم سے کچھ مدد چاہی تھی۔

چونکہ معاشرے میں اخلاص سے خدمت خلق کرنے والوں کو بھی، اگر وہ خود صاحب حیثیت نہ ہوتو، تو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ کئے بنا کے انہیں دستیاب سہولیات کا استعمال ہوچکا بھی کہ نہیں، ہم نے اس کے ہاتھ میں نقد رقم دینے کے بجائے، نیچے مفصل لکھے مطابق اس تونگر معطی علاج کے پاس انہیں بھیجا۔ اللہ کا کرم ہوا اس نے بچی کی رپورٹ دیکھنے کے بعد، اسی وقت انہیں کرناٹک سے مدراس بھیج دیا اور الحمد للہ بغیر ایک پائی خرچ کئے، ایک اچھے معیاری ہاسپٹل میں وہ بھی جراحت قلب عملیات سے گزرتے ہوئے صحت یاب ہوکر وطن واپس آچکی تھی

تین دہے پہلے ہمارے ایک تاجر دوست نے مدراس ٹمل ناڈو کسی ادارے کے توسط بننے والے میڈیکل کالج کو، ایک گران قدر عطیہ دیا ہوا تھا۔ اور اس ادارے کے انتظامی بورڈ نے، اس وقت ایسے بڑے گرانقدر معنی حضرات کی قدر منزلت کو معاشرے میں زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے،سال میں ایک انکے ترسیل کردہ، غریب و مفلس مریض کے دل کے منجملہ آپریشن اخراجات صرف نظر کر، اسکا مفت علاج کیا کرتے تھے۔اور یہ اسلوب مفلس خیراتی اداروں کو اپنانا بھی چاہئیے۔کہ ان کے توسط سے آئے غریب بچوں کو تعلیمی ادارروں میں خصوصی توجہ دیں جائیں تاکہ انہیں بھی انکے عطیہ جات کا کچھ تو دنیوی فائیدہ ہوتا

محسوس ہو، چونکہ سال میں ایک مریض ہی آپریشن مکمل مفت ہوتا تھا اس لئے وہ انتہائی غریب و مفلس مریض ہی کو دیکھ جانچ کر اس کا فری علاج کروایا کرتے تھے۔ چونکہ سال میں انکا تحویل کردہ ایک ہی مریض مستفید ہوسکتا تھا اسلئے ابتدائی چھ ماہ وہ احتیاط برتتے اور انہیں اپنے تفویض کئے اختیار کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہوجاتا تو کسی بھی غریب کو اس سے استفادہ کے لئےاپنے تعارفی لیٹر کے ساتھ بھیج دیا کرتے تھے

ایسے ہی ہمارے دوسرے متوفی دوست زندگی بھر خود عزت والی معتدل زندگی جیتے رہے اور اپنے دوست تونگروں سے بھیک مانگ مانگ کر، غریب و نادار بچوں کو اعلی تعلیم دلواتے رہے۔ 11 سال قبل انکے انتقال بعد تعزیتی اجلاس میں قرب و جوار غریب لوگوں نے ان کی تعلیمی مدد و نصرت کے جو راز عوامی سطح پر طشت از بام کئے، ان کے مرنے کے بعد نہ صرف عام لوگوں کو، بلکہ ان کے کٹر مخالفین کو بھی ،

انہیں سلام کرنے اور انکی عقیدت کرنے پر مجبور کیا تھا۔کسی کامیاب شاعر کی اچھی معیاری شاعری کی پیچھے ان کے معشیتی کہ ازدواجی زندگی کے درد ہی جو ہوا کرتے ہیں، ہم نے بھی اپنے قلب کے پھپولوں کی مرہم کشائی کے لئے،انسانیت کی آگہی خدمات کا ہی سہارا لیا ہوا ہے۔کہ پاک پروردگار کو ہم پر ترس ہی آجائے اور اس کے “کن فیکون” سے ہمارے وقتی تمام مسائل سے ہم ازاد، اپنوں کے پاس آ پائیں۔ بس اس خاکسار کے لئے دعا کی درخواست ہے کہ وہ مشکل کشا ہماری مشکل کشائی پر آجائے

مالک دوجہاں جو رزاق و شافی کل امراض بھی ہے وہ اپنے ضرورت مند بندے کی وقت پر مدد کے لئے،ہم جیسے مہروں کے دل و دماغ میں بات ڈالتے ہوئے، ان ضرورت مندوں کا کام کروایا کرتے ہیں۔ آج اس واقعہ پر دو ڈھائی دہے کا عرضہ گزرنے کے بعد، اس معطی کی یاد آئی جو ہم سے جدا،اپنے مالک حقیقی کے پاس جاکر بھی، دس ایک سال ہوچکے ہیں۔ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں رکھے اور ان کی انسانیت کی خدمات ہی کے صلہ میں ان کی بھرپور مغفرت فرمائے، اور وہ مفلس رضاکار آج بھی غرباء و مساکین کی

اعانت کے لئے، ہم جیسوں کے تعاون کی اپیل کرتے رہتے، معاشرے میں خجل ہوتے رہتے ہیں۔ اس بچی کی جان بچانے ان دونوں کی محنت کارفرما تھی ہم نےتوانہیں راہ سجھائی تھی، اسی طرح کسی سائل کو اپنی استطاعت مطابق مدد و نصرت کی جاتی رہنی چاہئیے۔ اللہ ہی اس رضا کار اور اس جیسے تمام خدام انسانیت رضاکاروں کی دنیوی زندگیوں کو بھی آباد کرے اور آخرت میں بھی ہمیں اپنی رحمتوں کے صلہ میں، مستحق جنت قرار دے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں