یہی حقیقت ہے 150

یہی مکافات ِ عمل ہے

یہی مکافات ِ عمل ہے

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

یہ شعرتو آپ میں سے اکثروبیشترنے پڑھایاسناہوگا
ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا
دائم آباد رہے گی دنیا
یہ شعردنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے لیکن ہمیں غورکرنا محال ہے ہم دنیا کی چوکاچوند رنگ رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیںیا پھر اپنی خواہشوںکی بھول بھلئیوں میں گم ہیں ایسا کریںآپ چار دن منظر سے غائب ہو کر دیکھیں لوگ آپ کا نام تک بھول جائیں گے!! پھرکس بات پر انسان اتنا اتراتاہے۔غرور کیسا؟ یہ ساری زندگی میں میں کیونکر؟ حالانکہ
آگا ہ اپنی موت سے کوئی بشرنہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
یقیناانسان ساری زندگی اس فریب میں گزار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کیلئے اہم ہے روزانہ ہمارے اردگرد درجنوںافرادکے مرنے کی اطلاعات ملتی ہیں کبھی مساجدمیں اعلان ہوتے ہیں کبھی کوئی پڑوسی،رشتہ داریا دوست فوت ہوجاتاہے کوئی اہم شخصیت انتقال کرجائے تو کئی کئی روز اخبارات ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اس کا تذکرہ ہوتارہتاہے،کوئی اداکار،نامور کھلاڑی یا کوئی سیلیبرٹی کی موت بارے خبر آجائے ،کوئی حادثہ ہو جائے یاپھرکبھی کبھار کسی عزیز،دوست رشتہ دار کی عیادت کو ہسپتال جانے کااتفاق ہو یا کسی کے جنازے میں شرکت کرنا ہو کبھی والدین یا کسی بہن بھائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے کے لئے قبرستان جانا پڑے تو کچھ دیر ہمیں دنیا کی بے ثباتی کااحساس ہوتاہے

اور چندلمحوں کے لئے یہ احساس ہمیں جھنجوڑ کررکھ دیتاہے کہ یہ دنیا فانی ہے دل لگانے کی جا نہیں بس یہ وہم جان نہیں چھوڑتا میں بڑااہم ہوںلیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا فرق صرف ان پیاروںکو پڑتاہے جن کے مفادات اور ضروریات مرحوم سے وابستہ ہوتی ہیں ورنہ زیادہ ترجوان اولاد تو بڑھاپے میں بوڑھے والدین کو پوچھتی تک نہیں اسی لئے سڑکوں،چوراہوں اور پارکوںمیں لاوارث بوڑھے زندگی کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی میں گذاردیتے ہیں

اسی طرزِ عمل نے اولڈ ہوم آبادکررکھے ہیں جہاں عیدین ،شب ِبرأت پربھی ان کے پیارے پوچھتے تک نہیں، اسی بے حسی نے گھروں کو دردکا جہاں بنادیاہے بہت سارے بوڑھے والدین اولادکی لاپرواہی،نظراندازی،عدم توجہگی اور بے حسی کے سبب ایک ایک پیسے کو محتاج ہوجاتے ہیں کئی ایک ان کے عجیب و غریب رویے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں حالانکہ خدائے وحد‘لاشریک نے تو حکم دیا کہ جب والدین بوڑھے ہوجائیں

تو انہیں اف تک نہ کہو جب یہ حقیقت آشکارہوتی ہے تو دیرہوچکی ہوتی ہے یہاں تک کہ مر جانے سے بھی کسی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں آئے گا یہی لوگ وقتی افسوس یامختلف سٹیٹس دے کر اپنی اپنی زندگیوں کی رعنائیوں میں گم ہو جائیں گے یہی وہ تلخ حقیقت ہے جسے ہم جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں یعنی

یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے،افسوس ہم نہ ہوں گے

یہی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہونے نہ ہونے سے دنیاکوکوئی فرق نہیں پڑتا کاروبار زندگی یوں ہی چلتا رہتا ہے اور کوئی نہ کوئی(replacement) ہماری جگہ لے لیتی ہے یہی قانون قدرت اور سب سے بڑی سچائی ہے یہ بھی سچائی ہے کہ اگرآپ کسی بھی قبرستان چلے جائیں تو بغورجائزہ لیں تو یقینا کچھ قبروںکی حالت ِ زار دیکھ کر آپ کادل دہل جائے گا سینکڑوںقبریں اتنی خستہ حال ہیں کہ محسوس ہوگا جیسے کوئی مدتوں یہاں آیاہی نہیں فاتحہ خوانی تو ایک الگ بات ہوئی خداجانے ہماری قبریں کس حال میں ہوں گی؟ کوئی نہیں جانتا کسی کو خبرنہیں اس کی منظرکشی بہادرشاہ ظفر ؒ نے یوں کی ہے

ظفرکوئی میری ِ قبر پہ آئے کیوں؟
کوئی چارپھول چڑھائے کیوں ؟
بجھی شمع آ کرجلائے کیوں؟
میں وہ بے کسی کا مزارہوں

ٹوٹی پھوٹی، خستہ حال قبر یا پھرپودوںسے مزین،گلاب کے تازہ پھولوںسے ڈھکی ہوئی ۔۔بس ایک احساس ہے جیسا آج ہم اپنے والدین کے ساتھ کررہے ہیں وہی یقینا ہمارے ساتھ ہوگا کیونکہ انسان جو کچھ بوتاہے اسے وہی کاٹناپڑتاہے یہی مکافات ِ عمل ہے وگرنہ زندگی میں کام ختم ہوتے ہیں نہ دنیا کی رنگینیاں مانندپڑتی ہیںکسی کے آنے جانے کاروبارِ زندگی پر کچھ فرق نہیں پڑتا یہی ناقابل ِفراموش سچائی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں