چلئے نماز و قرآن پڑھنے والے روبوٹ تیار ہوگئے 160

میٹاMeta فیس بک نئی پہچان

میٹاMeta فیس بک نئی پہچان

احقر
محمد فاروق شاہ بندری

میٹاMeta فیس بک نئی پہچان
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہر چیز کو منفی انداز لینے کے بجائے مثبت انداز سے بھی لیا جائے۔ یہ دنیا مادی ترقی پزیری والی معشیتی دنیا ہے، یہاں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ منافع کماتے رہنے ہی کی خاطر، مستقبل کے لئے لاحیہ عمل تیار کرتا پایا جاتا ہے۔یہاں جمود کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپنے حالیہ کاروبار سے مست جمود کا شکار ہونے والی عالم کی سب سے بڑی نوکیا موبائل کمپنی کا حشر بھی عالم نے دیکھ لیا ہے کہ، کس طرح سے آئی فون، سیم سنگ، سونی ایرکسن، ہوائی سمیت عالم کی مختلف نئی موبائل کمپنیوں نے، اسے نہ صرف پچھاڑ دیا تھا بلکہ بری طرح سے، اسے مارکیٹ ہی سے اٹھا باہر پھینک دیا تھا۔

آگمیبٹیڈ ریالٹی یعنی تصوراتی اضافی دنیا کے حقائق جو کہ حقیقی دنیا کے تجربات کی روشنی میں، آپسی خلط ملط (انٹر ایکٹیو) کے ذریعہ ممکن بنایا جاسکتا ہےیا نئی ٹیکنک ایجادات سے اس تصوراتی دنیا سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے ۔عموما انسان حالت نیند میں جو خواب دیکھتا ہے جس سے حضرت انسان محظوظ تو ہوتا ہی ہے اور مزے بھی لیتا ہے اور وقت وقت سے ان خواب والے لمحات کو یاد کرکے تصوراتی طور خوش بھی ہوتا ہے لیکن اس خواب کی دنیا میں دوبارہ داخل نہیں ہوسکتا ہےاور خواب کی دنیا کی آگےکی سیر کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے اسی ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش عالم بھر میں ہورہی ہیں اسی کو تحقیق کرنا جستجو کرنا اور تدبر کرنا کہتے ہیں

انسانوں کے بنائے حاسب عالی(کمپیوٹر) کی مدد سے، ذہنی اپچ یاتصوراتی خواب کے تحت،عالم کے کسی بھی حصے میں رہ رہے شخص سے،کسی بھی وقت ملاقات کرنے کی خواہش، نہ صرف کسی انسان سے بلکہ عالم کے کسی بھی حصے کی کوئی بھی معروف شئی سے مستفید ہونے یا مزے لینے کی خواہش کو پورا کرنے یا پایا تکمیل تک پہنچانے کی جستجو ہی تو عالم کے بہترین دماغ کررہے ہیں، یہی تو ایجادات نؤ یا نئے نئے انوینش ہوتے ہیں جس سے ایک حد تک ماورائیت آج کے ہم مسلمان،

ایک دوسرے کو دینی علمی اعتبار سے صحیح غلط ثابت کرنے ہی مست جئے جارہے ہیں۔ جبکہ ہمیں اپنے شاندار خلافت راشدہ و خلافت عثمانیہ کے زوال والے دن بھی یاد ہیں جب ہلاکو خان بغداد پر اور مسیحی مشترکہ افواج اسپین پر یلغار کررہی تھیں تو اس وقت ہم مسلمانوں کے،اس وقت کے پڑدادا،تعیش پسندی کے شکار بنے مسواک و داڑھی کے سائز پر،یا کوئےکا گوشت کھانے کے جائز یا ناجائز ہونے پر تحقیق و تدبر کے گھوڑے دوڑاتے، مباحثے مناظرے کرنے ہی میں مست و مشغول تھے جبکہ آج سے چودہ سو چالیس سال قبل خاتم الانبیاء سرور کونین رسول مجتبی محمد مصطفی ﷺ پر اتاری گئی پہلی وحی
“اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ،خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ”
“اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا، انسان کو، خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا”

اس پہلی آیت کریمہ سے مالک و خالق دوجہاں، آخر امت محمدیہ کو کیا ہدایت دینا چاہ رہے ہیں؟ آج سے 1440 سال قبل جب انسان کی خلقت کے اسرار و رموز چھوڑ، وہ زمانہ آج کے بہت سے جدت پسند علوم سے ماورا تھا،آپنے پہلے قرآنی حکم ہی سے، خون کے لوتھڑے سے حضرت انسان کے وجود پائے جانے والے علم کے بارے پڑھنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی؟ دراصل اللہ چاہتا تھا اس کے بعد اتارے جانے والے قرآنی علوم کی روشنی میں، ہم مسلمان علوم عصر حاضر، ارض و سماوات، بحر،

جبل و صحراء کہ علوم شمس و قمر کہ ان گنت سیارے و نظام فلکیات و ان میں پائی جانے والی کل مخلوقات کے بارے میں تدبر کریں اور قدرت کے ان چیزوں میں پوشیدہ اسرار و رموز کے علم کو جانیں۔ اور نزول اسلام کے ابتدائی دور خلافت راشدہ میں جب تک ہم مسلمانوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں خالق کائیبات کی خلقت پر تدبر و تفکر کیا،ہم نے عالم کو بہت سے ایجادات سے بہرور کیا، قرون اولی کے ہم مسلمان جب تک علوم و قرآن و حدیث کی روشنی میں، علوم عصر حاضر پر تدبر کرتے رہے،ہم عالم پر حکمرانی کرتے رہے اور جب ہم نے تحقیق و جستجو کے گھوڑوں کو علوم عصر حاضر کے بجائے،

اسلامی علوم ہی پر تحقیق وتدبر کے بہانے غیر ضروری مسائل پر اپنے آپ کو الجھائے رکھنے اور اپنے منہج کو صحیح اور دوسروں کے منہج کو غلط ثابت کرتے مناظرے اور مباحلے کرنے لگے تو، عالمی مسیحی قوتوں نے، مشترکہ حکمت عملی کے تحت ہم پر یلغار کر، ہمیں نہ صرف زیر کر دیا بلکہ بعض علماء کو ان کی جان بخشی کے عوض، علوم دینیہ کو مسجد و مدارس کے مہرابوں اور گنبدوں کے

مابین ہی گویا مقید کرتے ہوئے، علوم عصر حاضر کو ہم مسلمانوں کے لئے شجر ممنوعہ قرار دےدیا، اور ہمیں اب تک ان یہود و نصاری مشرکین کے آگے غلام بناکے چھوڑ دیا تھا۔اسی لئے اسلام کے ابتدائی 800 سال کے دوران دنیوی علوم کو جتنا ہم مسلمانوں نے تسخیر کیا تھا کفار و مشرکین آج کے اس تمدنی ترقی پذیری کے اس تیز تر دور میں بھی، ان مسلم سائنس دانوں کے مرہون منٹ پائے جاتے ہیں۔

فی زمانہ الحمد للہ ایک حد تک عالم کے ہم مسلمانوں میں،علوم عصر حاضر کے حصول کی اہمیت جاگی ہے لیکن فی زمانہ علوم عصر حاضر کے، علوم قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ؛ہم آہنگی نہ ہونےکی وجہ سے، اتنا کار آمد و مفید نہیں ہورہا ہے جتنا کہ اس کا متقاضی ہے۔ یہود ونصاری کے عالمی مختبرگاہوں میں علوم و عصر حاضر پر تدبر و تحقیق کرنے والوں کو، ان کی رہنمائی کے لئے علوم قرآن و سنت سے بھی ہم آہنگ و آشنا کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور یقینا فرزندان اسلام کے ذی فہم بچوں کو

ابتدائی بچپن کے دنوں میں علوم دینیہ کے حصول کو لازم ملزوم کرتے ہوئے، ایک حد تک علوم دینیہ سے انہیں آشنا و ماہر کرنے کے بعد، انہیں میدان علوم عصر حاضر، حصول کےشہسوار بنایا جائے تو یقینا وہ فرزندان اسلام، مستقبل میں عالم کی رہنمائی لائق بن تیار ہوسکتے ہیں۔اس سمت مسلم ممالک پاک و ترکیہ و انڈونیشیا سعودی عرب، اپنے یہاں عالمی معیار کے کلیات و مختبر گاہیں تعمیرکر،عالم اسلام کے

عقل فہم سے لبریز اذہان کو،وظیفہ یاب کرتے ہوئے، اعلی تعلیم دلوانے، اپنے یہاں اچھے جدت پسند عصری عالمی مختبرگاہوں میں انہیں، تحقیق و تدبر و ایجادات نؤکی جدو جہد کرنے کے دلفریب مواقع پیدا کئے جائیں تو، سابقہ صد سال دوران امریکہ کے ترقی پزیری کے مدارج تیز تر انداز ترقی پائے جیسا، آئیندہ نصف صد میں،عالم اسلام، کافی حد تک عصری تعلیمی ترقی پزیری کے مدارج طہ کر سکتے ہیں۔ آج سے ربع صد سال قبل، جدہ سے شایع ہونا شروع ہوئے اس وقت کے اردو اخبار عرب نیوز والے اردو نیوز میں،

اس وقت کسی شاہی پرنس کے تعلیمی ترویج پر دئیے بیان پر، تبصراتی مضمون لکھ،امریکی طرز، حکومت سعودی عرب کو عالم کے مسلم اذہان کو مملکت لاتے ہوئے تحقیق و تدبر کرنے کی صلاح دی تھی اور ان ایام ہمارا تبصراتی مضمون اردو نیوز جدہ یر شائع بھی ہوا تھا۔ اگر سعودی حکمران وطنیت کے جذبے کو پس پشت رکھ، عالمی اسلامی اخوت کو فروغ دیتے پائے جاتے اور عالمی باذوق قابل اذہان کو، وظیفہ یاب کر،

مملکت میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جاتااور انہی یہاں مملکت کے عالمی معیار کے مختبر گایوں میں تحقیق و تدبر کر، نت نئے ایجادات کرنے کے مواقع فراہم کئے جاتے تو، یقینا آج مملکت کا ایک الگ عالم اسلام کا قائدانہ رخ سامنے آگیا ہوتا اور مملکت کے ساتھ ہی ساتھ عالم اسلام کی بھی بہت بڑی خدمت ہوتی۔ لیکن مشیت ایزدی کو شاید یہ منظور نہ تھا

آج ‘عالم علوم عصر حاضر’ پر، یہود و نصاری کے شہسواروں کا غلبہ ہے اور عالم کی معشیت بھی انہی کے زیر نگین ہے، تجارتی غلبہ کے باوجود عصری علوم کے ان کے ماہرین نے، گوگل و فیس بک کے مکر جال سے پورے عالم کو ایک حد تک اپنا اثیر بنایا ہوا ہے۔ اسلئے عالمی معشیت کو، اپنے دام الفت میں بدستور جکڑے رکھنے ہی کے لئے، طویل مدتی تدابیر اختیار کئے، وہ نہ صرف مصروف عمل ہیں، بلکہ مزید تدبر و تحقیق کے دروازے وا رکھے ہوئے، عالم پر اپنی چوہدراہٹ بدستور قائم رکھنے ہی کے فراق میں مست و مگن ہیں۔ہم مسلمان دنیوی عیش و عشرت و شکم سیری ہی میں مست و مشغول بڑے سے بڑے اور عالیشان رہاشی محلات تعمیر کئے جارہے ہیں، وہیں پر وہ اپنی محنت کی کمائی،

عالم کے غریب ملکوں میں پیدا ہوئے، عقل و فہم سے لبریز، کم عمر طلباء کو اعلی تعلیم وظیفہ یابی کے بہانے، ان پر اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی دولت لٹاتے ہوئے، گویا ایک حد تک انہیں خرید کر، ان کے ذریعہ عالم کو تسخیر کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ہم مسلمان جو خواب دیکھا کرتے ہیں وہ ہمارے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہی مست و مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوان ایسے خواب کیا دیکھا نہیں کرتے؟ جن کا شرمندہ تعبیر ہونا ناممکن ہوتا ہے؟ فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ یا ملکہ بالی

ووڈ، شاہ رخ خان یا ایشوریہ رائے کے ساتھ ہم رکابی یا توضیع وقت کے خواب کون نہیں دیکھتا؟ کیا کوئی اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی صحیح راہ تدبیر کرتا پایا جاتا ہے ۔یہود و نصاری کے عالمی اذہان اس سمت اپنے جہد مسلسل سے، نہ صرف ایک حد تک کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ حالیہ کورونا وبا عالمی لاک ڈاؤن پس منظر میں، جہاں انہوں نے اپنے کثیر الجہت مقاصد حاصل کر لئے ہیں، وہیں پر عالم کے کسی بھی کونے میں موجود متعدد افراد کے مابین زوم جیسے ایپ کے ذریعے، ورچوئل میٹنگ کو عام کر، عالم کے ہر خاص و عام تک، عالم کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوئے، عالم کے کسی بھی دوسرے

حصے میں رہنے والوں تک دسترس و رسائی کو گویا انتہائی آسان ثابت کردیا ہے۔ کورونا سے قبل سمندر مانند وسیع عالم کو کوزے میں بند کئے جانے والے، دنیا کو مسخر کرنے کے اس زوم کانفرنسنگ فن سے، کیا کوئی آشنا بھی تھا؟ ایسی ہی متعدد نئی دریافتیں عالم میں وجود پاچکی ہیں۔مثلا عالم کا کوئی بھی فرد عالم کے کسی بھی مشہور شخص سے، چاہے وہ ہالی ووڈ بالی ووڈ کے مشہور اداکار یااداکارائیں ہی کیوں نہ ہوں یا کسی ملک کا بادشاہ و سربراہ مملکت ہی کیوں نہ ہو، زوم کانفرنسنگ جیسے فائیو جی فائبر آپٹک جدت پسند تحقیق شد ایپ کے ذریعہ سے کسی سے بھی نہ صرف تخیلاتی طور

ورچوئل ملاقات کرسکیں گے بلکہ اس کے ساتھ کھانا کھانے یا کھیلنے وقت بتانے کے علاوہ اپنی شہوانی خواہشات بھی نہ صرف پورا کرتے پائے جائیں گے بلکہ ان تخیلاتی ملاقات باوجود اصل ملاقات والی لذتوں سے بھی وہ محظوظ ہوتے پائے جائیں گے۔ انہی کچھ انکی دریافت تحقیقات جدیدہ ہی کے لئے، عالم کی ایک بہت بڑی معلوماتی نشریاتی کمپنی فیس بک نے، مستقبل کے عالم کے بیشتر نوجوانوں کو انکے خوابوں کی دنیا کی سیر کزانے ہی کے بہانے سے، ان سے معشیتی فوائد حاصل کرنے کی نیت ہی سے، اپنے فیس بک اقدار کو تبدیل کر، آگمیبٹیڈ ریالٹی یعنی تصوراتی اضافی دنیا کے

حقائق سے عالم کو روشناس کرانے، اپنے نئے اقدار کو میٹا Meta نام سے عالم کے سامنے ظاہر کیا ہے اور یہ صرف انکے،عالمی معشیت پر اپنی حصہ داری کو لازم ملزوم کرنے ہی کی نیت سے ہے اور اب بھی ہم عالم کے مسلمان، اسے یہودسے نصاری کے، مسلم دنیا کو، اپنے قابو میں کرنے کی سازش قرار دے، اس جدت پسندی سے اپنے آپ کو ماورا رکھتے ہیں تو اس سےانہیں معشیتی طور جتنا نقصان ہوگا ہمیں جدت پسند دنیا سے کٹ کر جیتے ہوئے اپنے آپ کو مزید پسٹ رکھنے والے اپنے خلافت عثمانیہ کے زوال والے ایک سبب کی طرف جاتے،خسارہ عظیم میں رہتے پایا جائیگا اس کلپ پرالیاس شمسی کے شکریہ کے ساتھ،وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں