ہولے ہولے سے دعا لگتی ہے آخری قسط 192

ہولے ہولے سے دعا لگتی ہے آخری قسط

ہولے ہولے سے دعا لگتی ہے آخری قسط

از قلم روبیہ مریم روبی( آزاد کشمیر )

سکول سے یونی ورسٹی کے سفر تک فرق یونیفارم کا ہی نظر آیا۔باہمی تعارف کے بعد میڈم سندس صاحبہ ضرورت کے مطابق پڑھانے۔۔۔بتانے اور سمجھانے کے علاوہ ایتھکس پر بھی لیکچر دیتی رہیں۔جماعت کے اختتام تک اسائنمینٹ ٹاپک ”رومانیت”کے علاوہ ہم نے آدھی جماعت سے فون نمبر اکٹھا کر لیے تھے۔
اگلی جماعت میں میڈم صاحبہ نے ترجمے کے فن پر سلیس و جامع لیکچر پھونکا۔ ہمارے کچھ بھی پلے نہ پڑا۔سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ہم میم کو جانتے ہی نہیں تھے۔
غالب سے معزرت۔شرم ہم کو کبھی نہیں آتی
میڈم شاہدہ صاحبہ تسلسل سے بو لتی جاتیں مگر طبع لیکچر نوٹ کرنے کی اور مائل ہو جاتی۔ناممکن تھا مگر مشکل پسند طبعیت کے ہاتھوں ہم مجبور ہی رہے۔ہمارے پاس پنسل تھی نہ ہی رجسٹر۔
اگلی جماعت میں نا آشنا استاد صاحب کے ہاتھوں میں ڈائری دیکھی۔جماعت کی جان میں جان آئی۔کہیں سے تو پکی پکائی کھیر ملے گی۔
ہم فیصل آباد میں نو مولود تھے۔احساسِ کمتری کا شکار ہو رہے تھے۔نامعلوم نام سر نے اپنی زندگی کے حالاتی و واقعاتی مدوجزر اور آسمان و سیارگان کے ہیر پھیر کی کہانی سنائی۔موٹیویشن ملی,توجہ گاؤں کی یاد اور مشکلات سے ہٹ کر جستجو اور جدوجہد پر مرکوز ہو گئی۔سر اجمل صاحب کا بے حد شکریہ۔دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے عاجزی ہمبلنیس محنت و مشقت اور عبادت ضروری قرار پائی۔پھر جماعت کی در و دیوار لیپ ٹاپ کے نظارے دم سادھ کر کرنے لگی۔ایک خطیب صفت معلم صاحب نے تھیسس اور لیپ ٹاپ کی اہمیت و افادیت پر باآواز بلند روشنی ڈالی۔جو کہ سمیسٹر کے اختتام پر سر نعیم مبشر کے نام سے دریافت ہوئے۔ہماری پوری کاوش تھی کہ سر کے کانوں میں یہ بات ڈال دی جائے۔لیپ ٹاپ اور وائے فائے میسر نہیں۔البتہ غربت ہے۔نومولود اول بات کر نہیں سکتا۔کوشش پر غوغاں ہی نکلتی ہے۔
دو گھنٹے بعد سیدھے سادھے خلیے میں ایک صاحب بغل میں چند کتابیں دابے دروازے سے جھانکے۔استفسار کیا۔کس کی کلاس؟بیک زبان کہا سر جمیل اصغر کی۔ہاتھ سے ماسک ناک پر چڑھا کر دبایا۔دروازہ پیں کرتا دیوار سے جا لگا۔کہا۔میں ہی ہوں۔کونوں کھدروں سے ہنسی کے فوارے چھوٹنے لگے۔
اگلے دن معلم ثانی۔(ہماری مراد حکیم ابو نصر فارابی ہر گز نہیں۔)جماعت میں آئے۔(معلم اول ہفتوں غائب)آفتاب جماعت پر مہینوں ابنِ قیم ابنِ سینا ابنِ مسکویہ رشد سو فسطائی یونانی شیخ سہروردی غزالی رومی مجدد سر ہندی بھاری بھرکم فلسفوں کے ساتھ شعلہ بن کر سلگتے رہے۔بعد ازاں اخلاقیات کی جگہ اعراب اور تلفّظ نے لے لی۔کئی مناظر بدلے۔تبدیلی کیوں نہ آتی آخر تغیّر کائنات کی خوبی اول ہے۔
شعبہ اردو کے دو سلجھے ہوئے بیٹوں کے نام ”انوار” اور ”تصدیق ” ہیں۔ہم بدقسمتی سے دونوں کے دل میں جگہ نہ بنا سکے۔مارچ ٹونٹی ٹونٹی سے اگست تک کا علمی و ادبی مجلہ رفاہ مارٹ سے خریدنا چاہا۔۔۔قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔دکان دار نے ایمانداری کا مظاہرہ اور اپنا نقصان کرتے ہوئے کہا کالج سے شمارہ مفت ملے گا۔
26 اکتوبر شنبہ شام ساڑھے چھ بجے پڑھائی سے فرصت پاتے ہی سائنس بلاک کی سیڑھیاں پھلانگتے مسجد بلاک پہنچے۔میز پر عروضی تھیسس بکھرے پڑے تھے۔کچھ بچیاں صوفے پر بیٹھی ایتھکس سیکھ رہی تھیں۔ان کو سیلف اڈمیشن کے نقصانات سمجھائے جا رہے تھے۔جیسے ماں اکلوتے بیٹے کو برے دوستوں کی صحبت سے دور رہنے کی تلقین اس یقین کامل سے کرتی ہے۔آوارہ بیٹا کبھی نہیں مانے گا مگر فرض پورا کرتی ہے۔
میز پر پڑے مشترکہ لیپ ٹاپ کے سامنے مودبانہ کھڑے ہوتے ہوئے سر جی یونیورسٹی میگزین ”انوار” چاہیے۔استفسار کیا,پیسیاں دا یا مفت لینا اے؟کہا مفت۔مارٹ والے انکل کی باتیں ذہن میں گھوم رہی تھیں۔شیشے کے اس پار تھیسس کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معلم صاحب نے بتایا وہاں مجلے خشک کرنے کے لیے بکھرائے ہیں۔سوکھنے کے بعد سینیٹائزر سے دھو لیجیے گا۔فالتو رنگ اتر جائیں گے۔

اب آپ لے جا سکتی ہیں۔تھوڑا گیلا ہے۔پڑھنے کی نیت ہوئی تو سب سمجھ آ جائے گا۔ہماری زبان دانتوں میں دبکی ہوئی تھی۔وہاں سورج کی کرنوں کا نام و نشان نہ تھا۔تھیسس اور مجلے بے ترتیبے پڑے تھے۔گویا ادرک یا لہسن کوٹ کر چھاؤں میں سکھانے کے لیے رکھا ہو۔اور وہ اسی کپڑے کے رنگ میں رنگ گیا ہو جس پر پھیلایا گیا ہو۔مجلے بارشی کرونا کا شکار ہو کر اس قابل ہو چکے تھے کہ با آسانی یونیورسٹی کا نام بدنام کر سکیں۔جا بجا قوسِ قزاح کے رنگ بکھرے تھے۔وہ جو ہمارے ہاتھ لگا۔سراپا چھت ٹپکے پانی

میں شرابور تھا۔جس کا سبز ہلالی پرچم سا رنگ پکی پکائی آلو گوبھی میں کچی ہلدی سا ہو گیا تھا۔نکھٹو پھوہڑ عورت زندگی میں پہلی دفعہ ہنڈیا بد دلی سے پکائے تو ایسا رنگ نکلے۔مسکراتی کلیاں اٹھکھیلیاں کرتی تھکتی ہی کب ہیں؟ہم زینب ہاسٹل روانہ ہوئے۔۔۔۔اس ہاسٹل کی وارڈن سمیت تعریف و توصیف کے لیے الگ مضمون درکار ہے۔پوری دلجمعی سے ”انوار” کا مطالعہ کیا۔مجلے میں طبع شدہ مضامین کی

فہرست صفحہ اول پر دی گئی تھی۔مضامین اور صفحہ نمبر الگ الگ قطار میں ایک دوسرے کے پیچھے بلکہ نیچے یوں جا رہے تھے جیسے سیاسی طبقہ (سیاسی طبقے کو سیاست دانوں یا شریف لوگوں تک محدود نہ سمجھا جائے۔کچھ ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ اب کس و ناکس کو سیاست گھٹی میں ملتی ہے)
ناجائز خواہشات میں پڑ کر تہزیبی ثقافتی و اخلاقی لحاظ سے پستی کی اور ڈھلتا اور پھسلتا جاتا ہے۔اس کے علاوہ عصری غالب رجحانات بدلتی انسانی و غیر انسانی فطرت بے حسی کتب بینی اور اخلاقیات کا درس دیا گیا۔یہ رسالہ اس دیمک زدہ ردی سے بہتر تھا جو ایک سرکاری کالج کی گردزدہ الماری میں پڑا دیمک کی گولیوں سے چھلنی ہو گیا تھا مگر ہمیں میسر نہیں آیا۔بعضے قوم ساز نفسیاتی طور پر لوگوں کا حال

مجلے سے بد تر کر دیتے ہیں۔دوسروں پر رائے گوبر کی تھاپی کی طرح تھوپنے والا طبقہ سر فہرست ہے۔ہم ایسوں کی زنگ زدہ نفسیات و لفظیات و غلطیات کی ذمہ داری اپنے سر پر ” الزام” کی طرح ڈال کر گھر کے کسی کونے میں گھس کر تفکر میں پڑ جاتے ہیں۔آج تک جن لائبریریوں سے استفادہ کیا ان سی رفاہ کی لائبریری سے دس نکل آتی ہیں۔یہ یونیورسٹی کی پرسکون ترین جگہ ہوتی ہے۔کچھ نوجوانان بھولے پن کے آخری درجے کی حد تک ڈانواڈول ہوتے ہیں۔کچھ لائبریری میں آشناؤں سے گپ بازی کر کے

نہ صرف اپنے نامہ اعمال میں دوسروں کی چھبیاں لکھواتے ہیں بل کہ ان مظلوموں کے گناہوں میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔جو خموش کونہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آ کر ان کی آن لائن کلاس میں پوچھے گئے سوالات کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس مقدس جگہ پر کتنوں کا بہناپا جاگ جاتا ہے۔وہ ساری باتیں لاشعور سے نکل آتی ہیں جو دورانِ نماز شیطان یاد دلاتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب لائیبریرینز اور کتب فروشوں میں فرق نظر نہیں آتا تھا۔ہر دو کا کام روزے کی حالت میں پانی میں غوطہ زن ہو کر دوسروں کی پیاس بجھانا تھا۔
فیصل آباد میں چند ایک کے سوا رفاہ کے سامنے سے گزرنے والا گٹری گندہ اور بدبودار نالہ پریشانی میں مبتلا رکھتا ہے۔یہاں ایک مہینہ گزارنے کے بعد ہمیں خود میں یہ تبدیلی محسوس ہوئی ہے کہ پہلے نمکین کھارے پانی سے وضو کرنے کے بعد فلٹر کا پانی منہ میں ڈال کر نمکینی ذائل کرتے تھے۔اب کھارے پانی کو پانی ہی سمجھ کر کلی سے اجتناب کرنے لگے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں