اللہ اپنی اسکیم میں مداخلت پسند نہیں کرتا
نوفل سیف اللہ دبئی
وہ اپنے ٹارگٹ تک بڑے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ھے !یوسف کو بادشاھی کا خواب دکھایا ، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ھے تو دوسرا مستقبل کا نبی ھے ! مگر دونوں کو ھوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ھو گا !خواب خوشی کا تھا ،، مگر چَکہ غم کا چلا دیا !
یوسف دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑا ھے ،،خوشبو نہیں آنے دی !اگر خوشبو آ گئ تو باپ ھے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاھی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا !
سمجھا دونگا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ھے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رھا ھے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ھے یا نہیں ! لہذا سارا انتظام اپنے ھاتھ میں رکھا ھے !
اگر یوسف کے بھائیوں کو پتہ ھوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ھے اور وہ یوسف کی مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ھو رھے ھیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو !یوسف عزیز کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ ، ان مع العسرِ یسراً،،
جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں ،،مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا یوں شیطان بھی اللہ کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ھو گیا ،،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ھو جاتا تو یوسف سوالی ھوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا
اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : “این آر او” کے تحت باھر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناھی ثابت نہ ھو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں،، سب نے یوسف کی پاکدامنی کی گواھی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ : انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین ،،،
وھی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا ،، وھی قحط ھانکا کر کے یوسف کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ،، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بےبس معصوم بچہ ھے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا ، فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے ،جس نے میرے باپ کی بینائی کھا لی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے ،، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاؤ ،، یہ وہ کھوئی ھوئی بینائی واپس لے آئے گا !
اب یوسف نہیں یوسف کا کرتا مصر سے چلا ھے تو : کنعان کے صحراء مہک اٹھے ھیں، یعقوب چیخ پڑے ھیں : انی لَاَجِدُ ریح یوسف لو لا ان تفندون ،، تم مجھے سٹھیایا ھوا نہ کہو تو ایک بات کہوں ” مجھے یوسف کی خوشبو آ رھی ھے : سبحان اللہ ،،جب رب نہیں چاھتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی ،،جب سوئچ آن کیا ھے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئ ھے !
واللہ غالبٓ علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون ! اللہ جو چاھتا ھے وہ کر کے ھی رھتا ھے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی !
یاد رکھیں آپ کے دشمنوں کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ھی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ھو ،، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ھیں، اللہ پاک سے خیر مانگیں
اللّٰہ اپنی اسکیم میں مداخلت پسند نہیں کرتا۔
بہترین تحریر ہے۔