147

باب المدينة الحكمة

باب المدينة الحكمة

چوھدری صبیحہ عاجز،سیالکوٹ
اس کائنات میں دوسرے سے بڑے حکمت دان حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں آپ علیہ السلام کے بارے میں حضور اکرم تاجدار خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے فرمایا کہ:
“میں حکمت کا شہر ہوں اور علی المرتضیٰ شیر خدا اس شہر کا دروازہ ہے”حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بہت زیادہ حکمتیں ہیں آپ علیہ السلام نے کبھی بھی کسی بھی سوال کا جواب سوچ کر نہیں دیا ایک مرتبہ کسی یہودی نے پوچھا کہ مسلمانوں کے پیغمبر کے چچا زاد بھائی آپ کسی بھی سوال کا جواب سوچ کر کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ تم پہلے مجھے بتاؤ کہ تمہارے ہاتھوں کی کتنی انگلیاں ہیں؟

وہ ایک دم سے بولا کہ دس آپ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ تم نے سوچ کر جواب کیوں نہیں دیا اس نے کہا کہ میرے ہاتھ تو ہر وقت میرے سامنے رہتے ہیں اسی لیے مجھے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اس پر مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے دو جہانوں کے کسی سوال کا جواب سوچ کر نہیں دیتا کیونکہ یہ تمام جہاں ہر وقت میرے سامنے رہتے ہیں ایک مرتبہ مولا علی علیہ السلام جنگ فتح کر کے مدینہ واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک نابینا سائل لوگوں سے عرض کر رہا تھا

کے خدا تعالیٰ کے واسطے کوئی اسے ایک روٹی ادا کر دے کسی نے کہا کہ وہ اسی راستے پر کھڑا رہے جب اسے قدموں کی آہٹ سنائی دے تب اپنی سدا بلند کرنا جب مولا علی علیہ السلام کا قافلہ وہاں پہنچا تو سائل نے اپنی سدا بلند کی شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے غلام قمر سے فرمایا کہ جلدی کرو اسے ایک روٹی دے دو قمر کہتا ہے کہ حضور روٹی دستر خوان میں ہے مولا نے فرمایا کہ جلدی کرو اسے دستر خوان ہی دے دو اس نے کہا کہ دستر خوان صندوق میں ہے

آپ نے فرمایا کہ جلدی کرو اسے صندوق ہی دے دو غلام قمر نے کہا کہ صندوق اونٹ پر لادا ہوا ہے شیر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جلدی کرو اسے اونٹ ہی دے دو قمر نےاس کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھما دی سائل نے کہا کہ میں نے روٹی کا سوال کیا تھا مگر تو نے مجھے رسی تھما دی ہے قمر نے کہا کہ منھ بند کرو میرے آقا بڑے سخی ہیں اگر تمہاری آنکھیں ہوتیں تو تم دیکھتے مگر تم اس رسی کو اپنی آنکھوں پر پھیرو اس نے ایسا ہی کیا تو اس کی بینائی واپس آگئی اس نے دیکھا تو ستر اونٹوں کی قطار تھی

اور ان پر مال و زر لدے ہوئے تھے قمر اسے رسی آنکھوں پر پھیرنے کا کہہ کر وہاں سے بھاگ گیا تین دن بعد جب مدینہ میں مولا علی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اے قمر لجپال ایسے تو نہیں کرتے تم ہمیں چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے اس پر قمر نے کہا کہ میں اس لئے بھاگ گیا تھا کے آپ اس وقت جوش میں تھے اور مجھے بھی اس سائل کو عطا کر دیتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں