آئی ایم ایف کے ضمنی بجٹ کا کھیل! 102

سانحہ مری مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ

سانحہ مری مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

حکومت کی جانب سے ملک کو سیاحت میں سوئٹزر لینڈ کے مدمقابل بنانے کا تصور تو بہت پیش کیا جاتاہے ،مگر جس دارلحکومت میں بیٹھ کر سیاحت کو فروغ دینے کے بڑے بڑے دعوئے کیے جاتے ہیں ،اس دارلحکومت سے کچھ فاصلے پر ہی ہزاروں افراد رات بھر شدید برفانی موسم کے رحم و کرم پر کھلے آسمان تلے نہ صرف پڑے رہے ،بلکہ ان میں سے چوبیس افراد ٹھٹھر کر جابحق بھی ہو گئے،

اس سانحہ کے بظاہر اسباب تو موسمی نظر آتے ہیں ،مگر در حقیت اس سانحے کاسبب حکومت کی انتظامی نااہلی ،مجرمانہ غفلت اور فرائض سے لا علمی بنی ہے ،اس المناک سانحہ کی تلخ یادیں تک تا دیر ذہنوں سے مٹ نہیں پائیں گی۔اس میں شک نہیں کہ اس بارمر ی اور گلیات کے علاقوں میں غیر معمولی برف باری ہوئی ہے ،مگر یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں تھا ،محکمہ موسمیات نے موسم کی شدت کی پیش گوئی پہلے ہی کردی تھی

،مگر انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات سے گریز کیا ،جس کے نتیجہ میں المناک سانحہ ہوا ہے ، اس سانحہ نے حکومت کی انتظامی نااہلی کا سارا پول ایک بار پھر کھول دیا ہے کہ دنیا بھر کے سیاحوں کو دعوت دینے والی حکومت کھلے آسمان تلے گاڑیوں میں پھنسے افراد کیلئے بروقت امداد کا کوئی بندوبست نہیں کر سکی ہے ،یہ سب کچھ دور دراز علاقوں میں نہیں ،بلکہ وفاقی دارلحکومت کے پچھواڑے میںہوا ہے ،مگر مقامی ،ضلعی ،صوبائی اور وفاقی حکومتیں مل کر بھی بروقت برف باری میں پھنسے لوگوں کی مدد کر سکیںنہ ہی چوبیس افراد کی جانیں بچاسکیں ہیں۔ ؎
اس میںپہلا قصور تو عوام کا ہے کہ جو بغیر سوچے سمجھے سیاحت کو ذہن پر سوار کر کے چل پڑے تھے،دوسرا قصور حکومت کا ہے کہ جنہوں نے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو مری میں داخل ہونے دیا ،حالانکہ وہاں نہ تو اتنے افراد کا انتظام تھانہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی ،اگر حکومت ضرورت سے زائد گاڑیوں کو پنڈی میں ہی روک لیتی تو پھر بھی اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا،

بہرحال یہ سانحہ حکومتی اور انتظامی لاپرواہی کے باعث سامنے آیا ہے،تاہم کچھ حکومتی وزراء ہمیشہ کی طرح وقت گزرنے کے بعد غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں،سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،مگر ہمارے ہاں ایسا ہی رواج ہے کہ پہلے غلطی کا بوجھ دوسروں پر ڈالا جاتا ہے، بعدازاں خود مانتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں ،ہماری حکومتوں نے غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے غلطیاں دیرانے کا تہیہ کررکھا ہے اور ہمارے ادارے بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔
یہ حقیقت ہے

کہ ہمارے اداروں نے بھی اپنی کوتاہیوں سے کچھ نہیں سیکھا ہے ،یہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں کہ جب پانی سر سے گزرنے والا ہوتا ہے اور حالات زیادہ تر قابو سے باہر ہو چکے ہوتے ہیں ،اس بار بھی حسب رویت ایسا ہی ہوا ہے کہ چوبیس افراد کی جانیں گئیں،کئی ہنستے بستے کنبے مٹ گئے تو ہماری صوبائی حکومت کے ہیلی کا پٹر اور ریسکیوادارے حرکت میں آئے،اس کے بعد بھی سول انتظامیہ کی بجائے

فوج کی مدد سے ہی چند گھنتوں میں حالات پرقابو پا یا گیا ہے ،سوال یہ ہے کہ انتظامی ادارے کس مرض کی دوا ہیں ،وہ بر وقت کیوں کار گر نہیں ہوتے ہیں ؟کیا وہ دیکھ نہیں رہے تھے کہ ہزاروں افراد سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں اور شدید برفباری کی پیش گوئی ہے ؟اگریہ بروقت سوچ لیا جاتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے

کہ ایسا المناک سانحہ نہیں ہونا تھا ،یہ چوبیس جانیں کھونے کے بعد کیے جانے والے اقدامات پہلے بھی کیے جاسکتے تھے ،لیکن حکومتی انتظامیہ کی کہیں کوئی پلاننگ نظر نہیں آتی ہے اور اس کا خمیازہ عوام اپنے پیاروں کی موت کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔یہ آمر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مری کے المناک سانحہ پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے،تاہم اس کمیٹی کی رپورٹ کا بھی وہی حال نہیں ہونا چاہئے جو گزشتہ تحقیقاتی رپوٹوں کا ہوا ہے ،اس سانحہ کی نہ صرف رپورٹ فی
الفور منظر عام آنی چاہیے ،بلکہ غفلت کے مرتکب افراد کو سخت سزا بھی دی جا نی چاہئے، تاکہ دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بن سکے ،اس سارے معاملے کو جو لوگ سیا حوں کی لا پرواہی ورار دیے رہے ہیں انہیں شرم آنی چاہئے اور انہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے،اس سانحے کے بعد ضروری ہو چکا ہے

کہ ملک بھر کے سیاحتی مقامات پر انتظامات کو بہتر بنایا جائے ،اگرحکومت سیاحت کو فروغ دینے کی واقعی خواہاں ہے تو کم از کم سیاحتی شہروں کو ماڈل سٹی بنایا جائے، تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں سیاحوں کو کسی بھی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے ،سانحہ مری مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے ، حکومت سانحہ مری سبق آموز بنا کر اپنی درست راہوں کا تعین بھی کرستی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں