غیر سیاسی رویئے میں بدلتی عوامی سوچ
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
اپوزیشن کے احتجاج میں حکومت نے منی بجٹ پیش تو کردیا ہے ،مگر اس منی بجٹ کو پارلیمان سے منظور بھی کروانا ہے ،اس حوالے سے آئی یم ایف کا دبائو اور حکومت کی اپنی ضرورت ہے،تاہم اس ایشو پراپوزیشن کی جانب سے حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ یگا، اپو زیشن کی کوشش ہوگی
کہ منی بجٹ کا بل منظور نہ ہوسکے، کیونکہ مالی بل پر شکست کو حکومت پر عدم اعتماد تصور کیا جا تا ہے ،اپوزیشن منی بجٹ پر حکومت کو شکست دینے کیلئے اتحادی جماعتوں اور ناراض حکومتی ممبران سے رابطے کر رہی ہے،وزیر اعظم عمران خان کو ایک بار پھر منی بجٹ بل منظور کرانے کیلئے خود متحرک ہونا پڑے گا ،لیکن شائد اس بار انہیں پس پردہ بعض دوست مدد کیلئے دستیاب نہیں ہوں گے ۔
اس میں شک نہیں کہ اپوزیشن ڈیل اور ڈھیل نہ ملنے پر متحرک ہورہی ہے ، اپوزیشن ایک طرف یکجا ں ہو کر حکومت کے خلاف احتجاجی دبائو بڑنا چاہتی ہے تو دوسری جانب منی بجٹ پر حکومت کو شکست دیے کر تحریک عدم اعتماد کی راہ بھی ہمور کرنا چاہتی ہے،جبکہ حکومت کا دعوی ہے کہ منی بجٹ بھی پاس کروائیں گے اور اپنی مقررہ مدت بھی پوری کریں گے ، اپوزیشن کی ساری حسرتیں دل میں ہی رہ جائیں گی
،اگر حکومت پارلیمان سے منی بجٹ منظور کروانے میں کا میاب ہو جاتی ہے تو اس کے ذریعے حکومت کو 343 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہوگی جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 0.6 فیصد بنتی ہے،حکومت منی بجٹ کے ذریعے ایم آئی ایف کے کہنے پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی چھوٹ ختم کررہی ہے،اس کا لازمی نتیجہ نکلے گا کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
عوام پہلے ہی بڑھتی مہنگائی کے ہاتھوں پر یشان ہیں ،اُس پر منی بجٹ کے ذریعے مزید بوجھ پڑنے کے خدشات ہیں ،وزیر خزانہ ایک طرف نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں تو دوسری جانب منی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ منی بجٹ کے تحت جو جی ایس ٹی نافذ کیا جارہا ہے، وہ قابلِ واپسی ہوگا اور کاروباری حضرات سات دن کے اندر واپسی کے لیے کلیم داخل کرسکتے ہیں، لیکن وزیر خزانہ نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی ہے کہ جی ایس ٹی کی رقم جب کاروباری حضرات کو واپس مل جائے گی
تو ان کی جیبوں سے نکل کر عوام تک کیسے پہنچے گی؟ حکومت اب تک اپنی طے کردہ قیمتوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکی ہے تو اس بات پر کیسے عمل درآمدیقینی بنائے گی کہ جی ایس ٹی کی قابلِ واپسی رقم کا بوجھ عوام پر نہ پڑے؟ اس رقم کے قابلِ واپسی ہونے کا کسی حد تک فائدہ کاروباری حضرات کو تو ہوسکتا ہے، لیکن اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔حکومت کے پیش کردہ کسی بجٹ کا عوام کوپہلے کوئی فائدہ پہنچا ہے نہ اس بار پہنچے گا،اس کے باوجودحزبِ اقتدار آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت منی بجٹ منظور کرانے کے لیے جتنی بے تاب ہے،
حزبِ اختلاف اتنا ہی رخنہ اندازی کررہی ہے ،کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ منی بجٹ سے عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ پڑے گا ،اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کی مان کر عوام پر سارابوجھ ڈالتی رہی ہیں، لیکن اس وقت اقتدار میں انہیں عوام کے مسائل یاد نہیں تھے ،
مگر اب سب یاد آنے کے ساتھ احساس بھی ہو رہا ہے کہ عوام پر سارا بوجھ ڈالا جارہا ہے ،اپوزیش جماعتوں نے جس طرح اہنے دور حکومت میں عوام پرائی ایم ایف کو ترجیح دی ،اُسی طرح پی ٹی آئی بھی آئی یم ایف کی مان رہی ہے ، اس سے ایسا ہی لگنے لگا ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام پی ٹی آئی پر بھی اعتماد نہیں کریں گے۔
بے شک حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں،مگر اپنی معاشی نا کامیوں اور بری گورننس سے ضرور خطرہ ہے،حکو مت اپنی بری کار کردگی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، حکومت ساڑھے ا تین سال گزرنے اور با ر بار معاشی ٹیم بدلنے کےباوجود ملکی معیشت مستحکم کر سکی نہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلا سکی ہے ،
پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے قبل تبدیلی کے دعوئے کرتی رہی ہے اور ساڑھے تین سال گزار کر بھی وہی تبدیلی کے دعوئے دھرائے جارہے ہیں ،مگر عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی نہ عوام کو کوئی رلیف فراہم کیا جاسکا ہے ،اُلٹا آئی ایم ایف کا سارا بوجھ بھی عوام پرہی ڈالا جارہا ہے ،عوام کیلئے آئی ایم ایف کا بوجھ ناقابل برداشت ہے
،اگر حکومت اور اپوزیشن نے اپنی روش برقرار رکھی تو عوام کی سوچ بھی بدل سکتی ہے ،عوام کب تک سیاسی قیادت کا غیر ذمہ دارانہ روئیہ براداشت کرتے رہیں گے، عوام باعث مجبوری سیاسی قیادت کو مسترد کرتے ہوئے تیسری قوت کو برسرے اقتدار آنے کی دعوت دیے سکتے ہیں!