الحمد للہ علی کل حال 150

الماری کھولو

الماری کھولو

تحریر : نقاش نائطی
۔ +966562677707

اپنے کپڑوں کی الماری کھولو، اور جلوء عروسی کے وقت چند گھنٹوں کے لئے پہنا ہوا، اپنا شادی کا جوڑا، جو احتیاط سے رکھا ہوا ہے، اور جسے وقفے وقفے سے دیکھ وہ خود کے شادی کے بندھن میں بندھنے اور گھر گرہستن ہونے کی سوچ، مسکان اس کے چہرے پر سج جایا کرتی ہے، اسے ایک مرتبہ کسی پارٹی ہی میں پہننے کی کوشش کرو لیکن نہ ہی ہم یا آپ، بالکہ بہت کم ، نازنینائیں اور حسینائیں ہیں،

جو باوجود چاہت کے، چند گھنٹوں کے لئے پہننے، اس شادی کے،اپنی ملکیت والے جوڑے کو دوبارہ پہن پاتی ہیں ۔ بھلے ہی وہ دوبارہ اس قیمتی ڈریس کو، جسے اسکے باپ نے اپنی محنت کی حلال کمائی کی ایک اچھی خاصی رقم دے کر خرید، اسے سجایا تھا اور اس جیسی قبول ضرورت کو بھی، اسکی شادی کی شب، حاضر تمام نساء کے درمیان، اسے حسین تر لائق تعریف بنایا تھا،کوئی “بھی شادی شدہ نساء دوبارہ پہن نہیں پاتی ہے۔

ایک ایسی چیز جو اس کے لائق استعمال ہی نہیں، اسے مہینوں سالوں الماری میں بغیر استعمال رکھ کر، تہہ کر رکھی فولڈنگ کی جگہ سے رنگ کچھ اڑجانے کے بعد، کسی غریب کو دینے کے بجائے، اسکی اپنی شادی کے دوسرے تیسرے ہی دن یا اسی ہفتہ مہینے سال، اسکے اپنے خاندان میں یا گلی محلے میں ،کسی غریب بچی کی شادی میں اسے اسکے جلوء عروسی میں پہناتے ہوئے، اسکی خوشیوں کو دوبالا کرنے کی سوچ، ہم اہل ثروت یا متوسط طبقے کی نساء میں کیوں کر پیدا نہ کی جائے؟

یا گاؤں شہر میں مسلم نساء کی کوئی انجمن یا مرد و زن کی کوئی این جی او اس فکر کو اپنے میں جاگزین کر، متوسط اورامیر طبقہ کی شادیوں میں دلہن کے پہناوے کے لئے خریدی گئی انتہائی قیمتی ڈریسز کو حاصل کرتے ہوئے،نچلے درجے کے متوسط یا غریب مسکین بچیوں کی متجوزہ شادی سے قبل، اپنی شادی کا جوڑا کسی اور دلہن کے جلوء عروسی میں پہننے دیتے ہوئے،اس غریب کی دعائیں سمیٹیں جائیں۔

کسی این جی او کی طرف سے یہ امراء کے یہاں استعمال ہونے والے جلوء عروسی کے وقت کچھ گھنٹوں پہنے انتہائی قیمتی ڈریسز کو حاصل کرتے ہوئے، محفوظ رکھ، اس میں سے سائز کے حساب سے متعین ڈریس کسی مسکین و غریب بیٹی کی شادی کے وقت ڈرائی کلین کر، اسے استعمال کرنے کے لئے دئیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح سے کسی امیر زادی کا شادی کا جوڑا کئی اور ضرورت مند بچیوں کے کام آتے ہوئے، ان کی دعاؤں کے طفیل، اس کی ازدواجی زندگی کو کامیاب و کامران کرنے ممد و مددگار ہوسکتا ہے۔

سعودی عربیہ جیسے پیٹرو ڈالر سے مالامال ملک میں صاحب حیثیت گھرانوں کی نازنینوں کے شادی کے جوڑے انتہائی قیمتی کم و بیش ھندستائی کئی لاکھ ملکیت کے ہوتے ہیں۔ اور وہاں پر بھی کچھ گھنٹوں کے پہنے یہ قیمتی جوڑے بیکار بغیر استعمال چھوڑنے کے بجائے، اسے دوبارہ متوسط گھرانوں کی دوشیزاؤں کی شادیوں میں استعمال میں لانے کے لئے،عروس یا دلہن کے کپڑوں کی دوکان میں سجاکر رکھے جاتے ہیں

جہاں سے، کسی غریب کی شادی میں ،ماہر خیاط کے ہاتھوں وہ ڈریس نئی شادی ہونے والی دلہن کے لئے دوبارہ ترتیب دیا جاتا ہے اور ڈرائی کلین کے بعد کسی مالدار حسینہ کا جلوء عروسی پہنا،نہایت زرق برق قیمتی ڈریس، کئی ایک دلہنوں کے کام آتا ہے۔ یہاں سعودیہ میں کچھ تجار اسے اپنی تجارت کا حصہ بنا خود کچھ کماتے ہوئے غرباء و مساکین کی نساء کےلئے بیش بہا جلوء عروس ڈریس نہایت کم قیمت مہیا کیا کرتے ہیں۔

لیکن بھارت و پاکستان بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں کوئی مسلم این جی او اس سمت فکر کرے اور للہ فاللہ خدمت کی نیت سے اس سمت آگے بڑھے تو امیر و تونگر نئی شادی شدہ نساء سے رابطہ قائم کر، ان سے انکے استعمال ہوئے جلوء عروسی ڈریس حاصل کئے جاسکتے ہیں اور لامتناہی غریب و مسکین بچیوں کی شادیوں میں انہیں ایسے قیمتی ڈریس پہننے کا موقع دیتے ہوئے، انکی خوشیوں میں چار چاند لگا،

ثواب دارین حاصل کئے جاسکتے ہیں۔سائبر میڈیا پر گردش کرتی ٹمل ناڈ یا کیرالہ کی ایسے شادی جلوء عروسی ڈریس مہیا کرنے کی این جی او مصروف عمل ہیں۔ حیدر آباد مہاراشٹرا سمیت شمالی ھند کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ایسے للہ فاللہ جلوء عروسی ڈریسز مہیا کرواتے این جی اوز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلم اکثریتی علاقے کے رفاعی کام کرنے والے نوجوان اس سمت خدمت خلق میں اپنا حصہ دیتے ہوئے، خالق کائینات کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے والے بنیں۔وما علینا الا البلاغ

ریاست کیرالہ کے گاؤں مالا پورم میں وہ ٹیکسی چلاتا تھا‘ 2020 کے شروع میں اس کی ٹیکسی میں ایک خاتون بیٹھی‘ وہ سارا راستہ سسکیاں بھرتی رہی اور وہ اسے بیک مرر سے دیکھتا رہا۔وہ اترنے لگی تو اس نے عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر اس سے پوچھا ’’بہن آپ مجھے پریشان دکھائی دیتی ہیں آپ اپنی پریشانی بتائیں ہو سکتا ہے

میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں‘‘ یہ سن کر خاتون نے واقعتا” رونا شروع کر دیا اس نے اسے تسلی دی خاتون نے اپنی سسکیوں کے درمیان اسے بتایا کہ ’’کل میری بیٹی کی شادی ہے،ہم غریب لوگ ہیں، بیٹی کی شادی کا جوڑا نہیں خرید سکے تھے۔ اپنے ایک عزیز کے پاس مدد کے لیے گئی تھی لیکن اس نے انکار کر دیا مجھے اب سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘

وہ خود بھی پریشان ہو گیا، اس نے چند لمحے سوچا اور اسے پھر یاد آیا کہ پچھلے ماہ اس کے ایک دوست کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی، دوست نے بیٹی کو کئی ہزار روپے کا جوڑا خرید کر دیا تھا، یہ جوڑا اب بیٹی کے پاس بیکار پڑا ہوا ہوگا اور میں اگر وہ اس سے لے کر اس خاتون کو دے دوں تو یہ خاندان پریشانی سے نکل سکتا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے خاتون کو تسلی دی، اس کا ایڈریس لیا اور اس سے کہا ’’آپ اطمینان سے گھر چلی جائیں، میں شام تک آپ کو شادی کا جوڑا پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں‘‘

خاتون بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی، وہاں سے سیدھا اپنے دوست کے گھر گیا، اس سے اس معاملہ پر تبادلہ خیال کیا، دوست نیک انسان تھا، وہ فوراً مان گیا، دونوں اسکی بیٹی کے گھر گئے، اسے اس غریب نساء کی الجھن بتائی، بیٹی کے پاس جوڑا بیکار پڑا ہوا تھا، اس نے اسی وقت الماری میں ٹنگا رکھا وہ شادی کا جوڑہ نکال کر انہیں دیا۔ وہ اس ڈریس کو لیکر اپنے ایک دوست ڈرائی کلینر کی دوکان پر گیا،

اور سارا ماجرا سنا اس سے انتہائی سرعت کے ساتھ وہ ڈریس ڈرائی کلین کر دینے کی درخواست کی۔ اس نے اسی وقت وہ ڈریس مفت ڈرائی کلین کر دیا اور وہ شام سے پہلے وہ انتہائی قیمتی جلوء عروسی کا جوڑا لئے اس خاتون کے گھر پہنچ چکا تھا۔ شادی کے گھر سب نے وہ جوڑا دیکھا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا،

اور یوں ذرا سی اسکی محنت ایک غریب کے گھر دلہن و اسکے والدین کے چہرے پر خوشیاں بکھیر خود اسے بھی نے انتہا طمانیت دلا گئیں۔اس واقعہ سے اسے بے تحاشا خوشی ہوئی اور اس نے سوچا‘ ہمارے ملک میں لاکھوں خاندان اس مسئلے سے دوچار ہوتے رہتے ہیں، اگر کوئی اخلاص کے ساتھ اس سمت کوشش کرے تو کم از کم تھوڑی سی ان کی کوششوں سے بیسیوں ضرورت مندوں کی حاجت روائی ہوسکتی ہے۔

زندگی میں ایک مرتبہ جلوء عروسی پر بیٹھنے والی مفلس و مسکین دلہنوں کو ان کا جلوء عروش انکے لئے شاندار بناتے ہوئے، زندگی بھر یادگار لمحات انہیں مہیا کرواتے ہوئے، بے تحاشا غریببو نادار بیٹیوں بہنوں کی ڈھیر ساری دعائیں سمیٹنے کا موقع دے سکتا ہے۔اور یہی ان کا عمل مستقبل میں سعودی عرب میں مستعمل شادی کے جوڑے مہیا کرنے والی دوکانوں کی طرح غریب بہن بیٹیوں کے جلوء عروس کپڑے مہیا کرنے والا “

جلوء عروس ڈریس بینک‘‘ کے نام سے علاقے کی مستحق بہن بیٹیوں کی ضرورت پورا کرنے کا ممد و مددگار کپڑا بنک بن سکتا ہےاس واقعہ کے بعد اس نے بازار میں ایک دوکان کرائے پر لیکر، اپنے دوستوں کے تعاون سے حاصل کردہ شادی کے جوڑوں کو جمع کر سائز لکھ کر رکھتے ہوئے، اور دکان کے باہر ’’ڈریس بینک‘‘ کا بورڈ لگا دیا اور ساتھ ہی فیس بک پر اعلان کر دیا ’’اگرآپ کی بیٹی یا بہن کی شادی ہے

اور آپ شادی کا جوڑا ایفورڈ نہیں کر سکتے تو آپ ہم سے جوڑا مفت لے جائیں‘‘ لوگ اس سے مسلسل رابطہ قائم اس سے فری میں ڈرائی کلین کئے ہوئے جوڑے لیتے ہوئے اپنے ارمانوں کو سجانے میں محو و مصروف مشکور پائے جاتے ہیں

کیرالہ کی یہ این جی او اپریل 2020 میں شروع ہوئی تھی،یہ اب تک شادی کے 300 سوٹ ڈونیٹ کر چکی ہے جب کہ 800 سوٹ ان کے پاس تیار پڑے ہیں‘ تمام سوٹ پانچ ہزار سے لے کر پچاس ہزار مالیت کے ہیں‘ ڈریس بینک ضرورت مندوں سے سوٹ واپس نہیں لیتا تاہم انھیں یہ ہدایت ضرور کرتا ہے

کہ ’’آپ شادی کے بعد یہ سوٹ ضایع مت کریں‘ آپ بھی یہ کسی نہ کسی ضرورت مند کو دے دیجیے گا‘ عین ممکن ہے آپ کی طرح کوئی اور ماں بھی پریشان بیٹھی ہو‘‘ لوگ اس ہدایت کو سیریس لیتے ہیں، یہ سوٹ کسی اور ضرورت مند کو بھجوا دیتے ہیں یا پھر انھیں واپس کر دیتے ہیں۔

یہ ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کا ایک چھوٹا سا خیر کی جانب پہلا قدم تھا اس قدم نے کیرالہ کے لوگوں کو ویلفیئر کا ایک نیا طریقہ سکھا دیا ہے آپ یہ یاد رکھیں معاشرے ہمیشہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں اور ڈریس بینک جیسے ابتدائی اقدام سے شروع ہوتے ہیں، آپ بھی یہ سطریں پڑھتے پڑھتے سوچیں، آپ کی جب شادی ہوئی تھی تو آپ اور آپ کی بیگم صاحبہ نے کتنے فینسی ڈریس بنوائے تھے یا آپ نے اپنی بہن یا بیٹی کو کتنے مہنگے سوٹس میں الوداع کیا تھا

ہمارے ملک میں شادی کے یہ جلوء عروس ڈریس عموماً تیس چالیس ہزار روپے سے اسٹارٹ ہو کر لاکھ روپے تک پہنچتے ہیں لیکن یہ جلوء عروس جوڑے چند گھنٹوں کے ہوتے ہیں، آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں آپ کے وہ سوٹس کہاں گئے؟ مجھے یقین ہے آپ کو یاد بھی نہیں ہو گا مجھے یہ بھی یقین ہے آپ اگر انھیں تلاش کریں گے تو وہ کسی نہ کسی صندوق یا الماری میں خوار ہو رہے ہوں گے اور یہ وہاں خوار ہوتے ہوتے ضایع ہو جائیں گے۔

اب سوال یہ ہے اس اصراف کا کیا فائدہ؟ آپ یہ سوٹ نکال کر کسی ضرورت مند کو کیوں نہیں دے دیتے؟ اور آپ اگر یہ نیکی کر رہے ہیں تو آپ پھر اس کیرالہ والے کی طرح ایک چھوٹی سی این جی او کیوں نہیں بنا لیتے؟ آپ بھی دوست احباب کے گھروں سے شادی کے جوڑے اکٹھے کریں، ڈریس بینک بنائیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے چلے جائیں اور آپ اگر یہ کر ہی رہے ہیں تو پھرآپ صرف ڈریس بینک تک کیوں محدود ‘رہتے ہیں؟
ہم سائیکل بینک کیوں نہیں بناتے؟ اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزوں کا بنک کیوں نہیں بنایا جاتا ۔ امیر گھرانوں کے اسٹور روم میں ایسی بے شمار واشنگ مشینیں، ریفتیجیٹر، آستریاں، اوؤن ،جوسر مکسر معمولی خرابی سے گھر میں نئے سامان آنے کے بعد اسٹور روم کی زینت کچھ مہینے سال رہنے کے بعد کباڑیوں کو اونے پونے داموں بیچ دئیے جاتے ہیں

اور علاقے کے ذمہ دار نوجوان ایک وفد کی صورت ان تونگروں کے گھر ایک ملاقات کر انہیں مایل کر ان سے ایسی بہت سی چیزیں بیک وقت حاصل کرسکتے ہیں اور کسی میکانک کی خدمات حاصل کر، اسے ریپئر کرتے ہوئے کسی غریب کے گھر تحفتا” ایسی نادر چیزوں کو دیا جاسکتا ہے
ہم سب کے گھروں میں ہمارے جوبچے بڑے ہو گئے ہیں، ان کے کھلونے اسٹور رومز میں پڑے ہونگے،

ہم یہ نکال کر ’’ٹوائز بینک‘‘ کیوں نہیں بناتے؟اور ہمارے گھروں میں فالتو برتنوں‘ پرانے فرنیچر‘ پرانے جوتوں‘ پرانے کمبلوں‘ رضائیوں‘ چادروں‘ کپڑوں‘ چھتریوں‘ ٹائروں‘ موٹر سائیکلوں‘ کھڑکیوں‘ دروازوں اور پردوں کا انبار بھی لگا ہوا ہوگا‘ ہم ان کے غریبوں کا استفادہ کروانے کا کیوں نہیں سوچتے؟

آپ یہ یاد رکھیں ہم جن چیزوں کو بے کار سمجھتے ہیں وہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کی زندگی کی تمنائیں ہوتی ہیں ‘لوگوں کی پوری پوری نسل ان کی خواہش میں زندگی کے دائرے سے نکل جاتی ہے‘ ہم اپنے اسٹور‘ صندوق اور پیٹیاں خالی کر کے ان کی خواہشیں‘ ان کی تمنائیں پوری کیوں نہیں کرتے؟

لہٰذا آپ جہاں بھی ہیں اور جو بھی ہیں آپ وہ کیرالہ والے ٹیکسی ڈرائیور بن جائیں اور اس ملک میں ’صندوق کھولو‘ الماریاں خالی کرو اور اسٹور روم صاف کر دو‘‘ مہم چلائیں‘ آپ اس ملک میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے چھوٹے چھوٹے بینک بنائیں‘آپ یقین کریں یہ بینک اس ملک کا مقدر بدل دیں گے‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں