آئی ایم ایف کے ضمنی بجٹ کا کھیل! 172

وزیر اعظم کی عالمی برادری سے اپیل

وزیر اعظم کی عالمی برادری سے اپیل

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

بھارت کو صرف ہندوئوں کا ملک بنانے کیلئے نریندر مودی سرکارکی سرپرستی میں انتہا پسند ہندو گروپوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا صفایا کرنے کا جو مذموم منصوبہ بنا رکھا ہے، اس پر عملدرآمد کی رفتار دن بدن تیز ہوتی جارہی ہے،بی جے پی کے شدت پسندانہ نظریے کے سائے میں ہندو توا جتھے پوری آزادی اور ڈھٹائی سے اقلیتوں پر نہ صرف حملہ آور ہور ہے ہیں ،بلکہ انہیںسزا سے بھی استثنا کر دیا گیا ہے ،

اس صورت حال میںوزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں اپنا کردار ادا کریں ، ، اس قبل بھی وزیر اعظم پاکستان نے توجہ دلائی تھی کہ ُدنیائے عالم بھارت کے اقلیتوں پر مظالم رکوائے ،لیکن اس معاملے پر عالمی برادری توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ،

کیو نکہ ان کے معاشی مفادات بھارت سے جڑے ہیں، دُنیا کے دوہرے معیارات اور دوغلے پیمانے اب کھل کر سب کے سامنے آ نے لگئے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا عالمی دنیامطالبہ جائز ہے، مگر دنیا ئے عالم اپنے مفادات کے پیش نظر بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے ،اس لیے پا کستان کو پہلے کشمیریوں اور پھر بھارت کے دیگر مسلمانوں کے معاملے کا از خود نوٹس لینا ہو گا

اور یہ نوٹس محض مطالبے، زبانی جمع خرچ یا نمائشی اقدامات سے نہیں لیا جانا چاہیے، اگر عالمی برادری کو جگانا ہے تو سفارتی سطح پر کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے معاملے میں سر گرمی دکھانا ہو گی،پا کستان کو عالمی دنیا میںایسے باصلاحیت مضبوط لوگوں پر مشتمل وفود بھیجنے ہوں گے جو بھارتی مظالم کے ثبوت کے ساتھ نہ صرف اپنا نقطہ نظر پیش کریں، بلکہ عالمی برادری کو بھارتی مظالم روکنے پر قائل بھی کر سکیں ،اس کیلئے ایک قبل عمل موثر حکمت عملی وضح کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پا کستان کی سفارت کاری بھارت کے مقابلے میں کمزور رہی ہے ، بھارت عالمی قوانین کی خلاف ور زیاں کرکے بھی سر خرو ہے ،جبکہ پاکستا ن پر ایف ٹی ٰیف کی تلوار لٹک کرہی ہے ،جبکہ کشمیر کے معاملے پر بھی73برس گزرنے کے باوجود گرد جمی ہوئی ہے ، اس میںجہاںبھارت کا ہاتھ اور عالمی برادری کی بے حسی ہے ،وہیں اصل فریق مدعی کی سستی بھی شامل حال رہی ہے

۔ پاکستان کی جانب سے سفارتی سطح پر ایسی سر گرمی ہی نہیں دکھائی گئی کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ اس ملک کا کشمیر سے کوئی رشتہ ہے، ایک زمانے تک حکمراں عوام کو کشمیر سے رشتہ کیا لا الہ اللہ کا سبق پڑھاتے رہے ،لیکن9/11 کے بعد سے ہمارے پیمانے ہماری حکمت عملی، ہماری پا لیسی ،سب کچھ ہی بدل گیاہے، کشمیر پرمختلف فار مولے پیش کیے جانے لگے ہیں،یہ ہماری بدلتی پا لیسیوں کا نتیجہ ہے کہ بھارتی سر کا ر کے اتنے حوصلے بڑھ گئے ہیں کہ مقبو ضہ کشمیرکے مسلمانوں کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا جارہا ہے اوراسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
بھارتی سر کار کے دن بدن مسلمانوں کے خلاف مظالم بڑھتے جارہے ہیں،بھارت بھرمیں مسلمانوں کے خلاف توہین وتضحیک اور مارپیٹ کی ایسی فضا پیدا کی جارہی ہے کہ جس کا مقصد بالآخر ان کی نسل کشی کے لیے میدان ہموار کرنا ہے، بھارت میں آئے روز مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں پر زندگی عذاب بنانے کے واقعات سامنے آرہے ہیں، خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کو آباد کرکے مسلمانوں کو اقلیت بنانے کے پروگرام پر عمل کیا جارہاہے،

اس کے ساتھ ہی غیرقانونی سرگرمیوں کے کالے قانون کے تحت بیرون ملک مقیم کشمیریوں کے خلاف مقدمات درج کئے جارہے ہیں،یہ انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کا کڑا امتحان ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کے لیے کونسے فوری اقدامات کرتے ہیں؟یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف دنیا میں اسلامو فوبیا کا خوف پھیلا کر مسلمانوں کے لیے نت نئی مشکلات پیدا
کی جارہی ہیں تو دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کے منصوبوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہاہے، یہ دنیائے عالم کی دوغلی پا لیسی زیادہ دیر تک نہیں چلے گی ،اس کے خلاف اب آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں ،بھارت کے اپنے اندر سے جہاں آوازیں اُٹھ رہی ہیں ،وہیں بیرونی دنیا بھی مطالبہ کررہی ہے کہ بھارتی سر کار کا ظالم ہاتھ سختی سے روکا جائے،اس معاملے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس فوری بلایا جانا چاہیئے ،

تاکہ بھارتی جاریحانہ رویئے کو نکیل ڈالنے کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ،اگر چہ بھارتی مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھارتی سر کار کی ہے ،مگربھارتی سر کار مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنانے کی بجائے انتہا پسند ہندوئوں کی پشت پناہی کر نے میں لگی ہے ،اگر اس سنگین صورتحال میں وزیر اعظم پا کستان کی اپیل کا عالمی برادری نے فوری نوٹس نہ لیا تو نہ صرف اس خطے میںانتشار برپا ہو گا، بلکہ پوری دنیا کا امن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں