کورونا کی بڑھتی ہلاکت خیزیاں! 124

جنوبی پنجاب پر سیاست!

جنوبی پنجاب پر سیاست!

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

ایوان بالا میں ایک بار پھر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں ،جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا معاملہ کوئی نیا نہیں، بلکہ بہت پرانا ہے،مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے لے کر پیپلزپارٹی اور اب پی ٹی آئی کے دور اقتدار تک ہر جماعت نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان ضرورکیا ہے،مگر اس پر عمل درآمد کرنے پر کوئی تیار نہیں ہے،ہر دور اقتدار میں کوئی نہ کوئی عذر پیش کیا جاتا رہا ہے ،

پی ٹی آئی کی جانب سے بھی دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا عذر پیش کیا جارہا ہے،اس معاملے پرتمام سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، اگر بشمول مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نیا صوبہ بنانا چاہتی ہیں تو پھر دوتہائی اکثریت دیوار کیسے بن سکتی ہے؟ یہ تینوں جماعتیں مل بیٹھ کر آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ بناسکتی ہیں،مگر اس معاملے کو حل کرنے کی بجائے آج بھی ہمیشہ کی طرح سیاسی پوئنٹ سکورننگ کی جارہی ہے ۔
یہ امر واضح ہے

کہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے نہ اس معاملہ میں کبھی آئینی تقاضے کے تحت عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، محض جنوبی پنجاب کی پسماندگی اور محرومیوں کا رونا رو کر ہر جماعت ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتی رہی ہے ، اس سیاست نے سندھ اور سرحد میں بھی نئے صوبے کی سیاست کو ہوا دی،

سندھ میں ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کو صوبہ بنانے کے لیے آواز اٹھائی گئی توپیپلز پارٹی کی جانب سے سخت مخالفت ہوئی اور سندھی قوم پرستوں نے اعلان کر دیا کہ سندھ میں سے نیا صوبہ ہماری لاشوں کو اٹھا کر ہی بنایا جا سکتا ہے، علاقائی بنیادوں پر ہونے والی سیاست نے صوبہ سرحد میں بھی سیاسی طوفان اٹھایا، جہاں صوبہ ہزارہ کی تحریک شروع ہوئی تواسے اے این پی کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہمارے ہاںبدقسمتی سیاست تعمیری سے زیادہ مفاداتی بن کر رہ گئی ہے ،اس لیے کسی سنجیدہ مسئلے پر کوئی سنجیدہ بحث بھی نہیںکی جاتی ہے، محض علاقائی محرومیوں کا رونا رویا جاتا رہاہے، جبکہ وسائل سے محرومی اور پسماندگی صرف جنوبی پنجاب کے علاقے کا مسئلہ نہیں، بلوچستان، سندھ اور کے پی کے میں بھی کئی

علاقے انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں، جبکہ پنجاب میں چولستان کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں، ملک میں انتظامی بنیادوں پر صوبے بننے چاہیں، نا کہ علاقائی بنیادوں پر بنائے جائیں،اس ملک میں اصل مسئلہ عوام کی پسماندگی اور ان کی محرومیاں دور کرنے کا ہے کہ جس کے لیے عملیت پسندی کے تحت انتظامی اقدامات اٹھانے کی اشدضرورت ہے ۔
اس ملک میں نئے صوبے کا نعرا زیادہ ترسیاسی مفاد کے پیش نظر ہی لگایا جاتا رہا ہے ،اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے لیے مخلص ہوتی تو یہ کارنامہ 2008 ء کی اسمبلیوں میں سرانجام دیا جا سکتا تھا کہ جب پنجاب میں مسلم لیگ (ن) دوتہائی اکثریت میں تھی

اور مرکز میں پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی،پنجاب اسمبلی نے تو نئے صوبے کی قرارداد بھی منظور کر لی تھی، مگر قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو اپنی صفوں میں سے ہی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑاتھا، اسی طرح 2013ء کی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) نے ایک نئی چال چلی اور صوبہ جنوبی پنجاب کی بجائے صوبہ بہاولپور کی قرارداد منظور کرا لی ،اس سے نئے صوبے کا معاملہ حل نہیں ہو سکا ،پی ٹی آئی نے اس سیاست کا توڑ جنوبی پنجاب کے لیے الگ سیکرٹریٹ تشکیل دے کر نکالا ،مگر یہ بھی محض سیاسی سٹنٹ ہی ثابت ہورہا ہے ۔
اس وقت اپوزیشن نے بے وقت کی راگنی چھڑی ہے ،اس وقت عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے گھمبیر ہوتے مسائل سے سخت بحرانی کیفیت میںمضطرب ہو کر سڑکوں پر آنے کو بے تاب نظر آتے ہیں،

اس عوام کے اضطراب کو اپوزیشن کیش کرانے کی پوزیشن میں ہے، لیکن اس موقع پر ایک ڈیڈ ایشو کو دوبارہ زندہ کر کے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایوان بالا میں لانے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے،بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں پیدا ہونے والے قیادت کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے نئے صوبے کا شوشہ دوبارہ چھیڑا گیا ہے ،مگراس کا فائدہ اپوزیشن کی بجائے حکومت کو زیادہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مختلف صوبوں کے ناراض عناصر ہی نئے صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں،لیکن ہر بار راستے کی مشکلات دیکھ کر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں،ملک بھر میںنئے صوبے کے مطالبے کواب تک ایک سیاسی حربے کے طور پر اٹھایا اور بٹھایا جاتارہا ہے،اس معاملے پرملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سنجیدگی سے غور کرناچاہیے اور اس پرایک پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن بنانا بہتر ہو گا،

اگرساری سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اٹھاروویں ترمیم منظور کر سکتی ہیں تو یہ نئے صوبے کا پہاڑ سر کرنا کو نسا مشکل کام ہے ،اس معاملے کو کسی ایک علاقے یا صوبے تک محدود نہیں رکھناچاہئے،بلکہ وسیع تر تناظر میں غور کیا جانا چاہئے ،تبھی خوش دِلی سے آگے بڑھا جا سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں