حنفیت کانفرنس مکہ المکرمہ
نقاش نائطی
۔ +966562677707
مکہ مکرمہ میں حنفی مسلک کے نام نامی سے یہ جو کانفرنس منعقد کی گئی ہے اورحنفی مسلک کی زبردست ترجمانی کے نام سے یہ جو تقریر یہاں پیش کی گئی ہے یقینا آپنے اعتبار سے یہ ایک اچھی تقریر ہے۔نہ صرف امام ابوحنیفہ بلکہ ائمہ اربعہ میں سبھوں کے استدلال و اجتہاد سے،آج بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم تمام چاروں آئمہ کے استدلال انکے قائم کئے ہوئے اجتہاد سے اتفاق کرتے ہیں
اس لئے کہ ان چاروں آئمہ کرام نے، اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے، بڑی ہی جانفشانی سے تاقیامت کے ہم مسلمانوں کے لئے، دہن اسلام کو مختلف زایوں سے ہم تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ اقوال بھی انکے ہم تک پہنچے ہیں کہ بعد کے دنوں میں، انکے اجتہاد کئے کسی بھی اختلافی فیصلے کے خلاف، کوئی سریح حدیث کسی کو ملتی ہے تو ان کے اجتہاد کو رد کرتے ہوئے حدیث پر عمل کیا جائے
ایسے میں چاروں آئمہ کرام خصوصا امام ابوحنیفہ کے اجتہاد کئے اختلافی موضوعات کو بھی ہم احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن آج کے دین حنفیت میں جو اعمال جائز قرار دئیے آحناف میں عام کئے گئے ہیں اور جو احادیث سے ٹکراتے ہیں تو کیا احناف کو قول امام ابوحنیفہ کے تناظر میں، اس سے ماورائیت اختیار نہیں کرنا چاہئیے؟
آج کی حنفیت میں دیوبندی، بریلوی، ندوی ،تبلیغی (سعدی و امارتی) کے آپسی اختلافات میں کون صحیح کون غلط اسکا فیصلہ کون کریگا؟، بھارت کے احناف کا سب سے بڑا دارالافتاء بریلوی عقیدے کو اور مولوی سعد والے تبلیغی دھڑے کو راہ سراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے تسلیم کرتا ہے تو آج ہم کس حنفیت کو صحیح مانیں؟
کسی گاؤں سے شہر جانے کے لئے جب تک کوئی مضبوط سڑک حکومت کی طرف سے تعمیر نہیں کی جاتی، تب تک ہر کسی کو اختیار ہے، گاؤں کے بڑے بزرگوں کے، چل کر بتائے مختلف پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے، شہر پہنچنے کی سعی کریں ۔ لیکن گاؤں اور شہر کے بیچ مضبوط و سریع پہنچنے والی شاہراہ تعمیر کئے جانے کے بعد بھی، کچھ لوگ باپ دادا کے اختیار کی ہوئی پگڈنڈیوں کے اوبڑ خابڑ راستوں سے شہر پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں
تو کوئی کیا کرسکتا ہے؟ آٹھ سو ہزار سال قبل اس اونٹ و گھڑ سواری والے دور میں، ہمارے مختلف محدثین و مجتہدین کرام نے، ان تھک جدو جہد سے سفر کرتے ہوئے، یہ جو احادیث کا ذخیرہ جمع کیا ہے اس کے لئے تاقیامت تک کے مسلمان، ان کے ممنون مشکور رہیں گے۔ پہلے علم دین اسلام ،علماء فقہاء و محدثین تک محدود تھا
اور ان میں بعض نے، اپنے اپنے مکتب فکر کے اعتبار سے،اس کی اپنے نوع الگ الگ ترجمانی کرتے ہوئے مختلف فقہ کی کتابیں جو تحریر کردی تھیں،ہم مسلمان اپنے اپنے مسلکی عقیدے سے، دیہاتیوں کے مختلف پگڈنڈی استعمال کئے جیسا ان پر عمل پیرا تھے، لیکن فی زمانہ عصری تعلیمی جدت پسندی نے، تمام احادیث کی زخیم زخیم کتابوں کو گوگل پر آفلوڈ کرتے ہوئے، کسی بھی مسئلہ پر احادیث صحیح و مختلف انواع احادیث جیسے احسن ، ضعیف و موضوع احادیث کو، نیز آئمہ اربعہ کے اجتہادات کے ساتھ ہی ساتھ آئمہ ستہ کے اجتہادات کو بھی، کسی کے بھی دست و انگل تک رسائی آسان کردی ہے
۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شہر تک پہنچنے کے لئے شاہراہ تعمیر کی گئی ہے ۔ اب جب صحیح احادیث کا علم ہونے کے بعد بھی، کسی اختلافی اجتہادی مسائل پر رجوع نہ کرتے ہوئے، اپنے اپنے اماموں کے برحق ہونے کو ثابت کرتے ہوئے، تقلید امام کو واجب قرار دینے کی سعی ناتمام کی جائے تو یہ کہاں کی عقل مندی ہے۔ اگر تقلید امام ابوحنیفہ ہی صحیح عمل ہے تو، کونسے والے دھڑے، بریلویت دیوبندیئت ،
ندویئت، یا مولوی سعد والی یا امارت والی تبلیغیئت کو اختیار کیا جائے، یہ تو ممکن نہیں نا کہ ان پانچوں مکتبہ فکر کی حنفیت کو صحیح قرار دیا جائے؟ یہ جو مکہ المکرمہ میں حنفی مکتب فکر کی اتنی بڑی کانفرنس منعقد کی گئی ہے، اگر فی زمانہ رائج مختلف احناف کی دھڑے بندیوں کے اختلافات کو ختم کرکے،کم از کم عالم کے سب سے بڑے مذہبی فرقے، حنفیت کو ایک پلیٹ فارم تک لایا جاتا تو یہ دین اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوتی۔ احمدیت جیسے یہ جو مختلف گمراہ فرقے وقت وقت سے احناف میں ظہور پذیر ہورہےہیں
انہی مسلکی اجتہادات کی غلط ترجمانی ہی کا نتیجہ ہیں۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ عالم کے ہم دو ڈھائی سو کروڑ مسلمانوں کو، رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، تابعین، تبع تابعین و چاروں اماموں کےبتائے ہوئے طریقہ ہی سے، دین حنیف یا دین اہل سلف پر چلنے والوں میں سے بنائے تاکہ عالم کے کفار مشرکین ہمارے درمیان اختلافات کو دیکھتے