اہل مغرب کا دہرا معیار! 88

سیاسی منظر بدل سکتا ہے!

سیاسی منظر بدل سکتا ہے!

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

پا کستان کی سیاست باہمی انتشار کا شکار ہے ،حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے دست گریباں ہے ،اپوزیشن کی خواہش حکومت گرانا ہے تو حکومت کی کوشش اپوزیشن کو دیوار سے لگانارہی ہے ،اگرپاکستان نے حقیقی معنوں میں اپنے داخلی اور خارجی سطح پر استحکام کی طرف بڑھنا ہے تو اسے مجموعی طور پر اپنی موجودہ سیاسی روش کو خیر آباد کہنا ہوگا،کیونکہ اس وقت جو بحران پاکستان کو درپیش ہیں،ان سے سنجیدگی اور بہتر حکمت عملی کے ساتھ ہی نمٹا جاسکتا ہے، لیکن ہمارامسئلہ یہ ہے

کہ ہماری ریاست، حکومت اور دیگر اہم سیاسی، انتظامی اور قانونی فریقین کے درمیان ایک غیر سنجید ہ سیاست کو غلبہ حاصل ہے،ہماری زیادہ تر توجہ کا مرکز قومی معاملات سے نمٹنا کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشی یا سیاسی پوائٹ سکورنگ بالا دست ہوگی ہے،اس طرز سیاست میں کبھی کوئی سنجیدہ سیاست کا امکان پیدا ہو بھی جائے توو ہ اسی سیاسی محاز آرائی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے کی سیاست کا شکار ہوجاتا ہے۔یہ امر واضح ہے

کہ ایک جمہوری ملک میں حکومت اور اپوزیشن لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں،تاہم جس طرح برسراقتدار جماعت کو امورمملکت چلانے کیلئے وسائل و اختیارات حاصل ہوتے ہیں،اس طرح ہی حزب مخالف کو بھی آئینی اور قانونی حق حاصل ہے کہ عوام الناس کے مسائل و مشکلات میں ان کی آواز بنے اور ان کے جذبات سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو مہمیز دے،اپوزیشن جہاں حکومتی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتی ہے

،وہیںمتبادل پالیسیاں بھی وضع کرتی ہے، اپوزیشن کی مثبت تنقیدکو خوش اسلوبی سے قبول کرنا منتخب جمہوری حکومت کا خوشگوار فریضہ ہوتا ہے ، اس تعمیری تنقید سے فائدہ اٹھا کر حکومت کو اصلاح احوال کی کوشش کرنی چاہئے ،یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ،لیکن پاکستان میں سیاسی صورتحال بالکل مختلف ہوتی جارہی ہے

،یہاں اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو ماننے ،برداشت کرنے اور اپنا اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔پا کستان میں بظاہر جمہوریت رائج ہے اور سیاسی قیادت جمہوریت کے دعوئے بھی بہت کرتے ہیں،مگر عملی طور پر سب کے قول وفعل میں تذاد ہے، حکومت میں اپوزیشن برداشت کرنے کا حوصلہ ہے نہ اپوزیشن جمہوری روایات کی امین دکھائی دیتی ہے،دونوں ہی ایک دوسرے کوگرانے اور دیوار سے لگانے میں لگے ہیں

،اگر اپوزیشن نے احتجاج کا اعلان کیا ہے تو حکومت نے بھی احتجاج کو ناکام بنانے کی مکمل تیاری کررکھی ہے ،حکومت اور اپوزیشن زبانی کلامی عوام کادم بھرتے ہیں ،مگر عملی طور پر دونوں کو عوام کی بجائے اپنے مفادات عزیز ہیں ،ونوں میں سے کوئی ایک بھی عوام کیلئے اپنی انا پرستی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے ،جبکہ عوام دونوں کی محاذ آرائی کی چکی میں پس کررہ گئے ہیں۔
اس وقت اپوزیشن کے

غیرسنجیدہ رویئے اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے عام آدمی کیلئے تن و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے،ملک بھر میں آئے روز کی بڑھتی مہنگائی‘ لاقانونیت‘ بیروزگاری اور امن و امان کی حالت ناگفتہ بہ ہے،حکومت عوامی مسائل کا تدارک میں ناکام ہو رہی ہے تواپوزیشن کے پاس بھی عوام کی مشکلات کا کوئی حل موجود نہیں ہے،اپوزیشن کی تمام تر سرگرمیوں کا محور حکومت پر غیرتعمیری تنقید اور اسے اقتدار سے محروم کرنا ہے، اپوزیشن عوام کی مشکلات کے ازالے کے لیے نہیں ،بلکہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے جلسے‘ جلوس اور احتجاجی مظاہرے کررہی ہے، تاہم حکومت اور اپوزیشن کی تماتر کشمکش اور چپقلش کا نقصان سراسر عوام الناس کو ہی اُٹھانا پڑرہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں ہے ،اگر دونوں کو تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو مل بیٹھ کر عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ،مگر عوام کے مسائل کا تدار کرنے کی بجائے صرف نام استعمال کیا جاتا
ہے،حکومت اور اپوزیشن کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،سیاسی ایشو اور سیاسی مسائل کے حل کیلئے سیاسی فورمز پارلیمان موجود ہیں ،بہتر ہو گا کہ سیاسی مسائل سیاسی طریقے سے پارلیمان میں بل بیٹھ کر حل کر لیے جائیں ،کیو نکہ سڑکوں پر فیصلوں سے جہاں سیاسی فضا مکدر ہوتی ہے

،وہیںجگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں،پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم نے 27فروری اور 23مارچ سے مہنگائی مارچ کے نام سے حکومت مخالف احتجاج کا اعلان کررکھا ہے ،اس حوالے سے عوام میں بہت سے خدشات پائے جارہے ہیں کہ آگے جاکر پتا نہیں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ،اس لیے عوامی مفاد میں ضروری ہے

کہ سیاسی مسائل سیاسی انداز میں ھل کیے جانے چاہئے ،تاکہ امن وامان کی صورت حال خراب ہو نہ جمہوریت اپنی پٹری سے نیچے اترے اور معاملات یونہی افہام وتفہیم سے چلتے رہیں،ورنہ سیاسی منظر بدل سکتا ہے ،کوئی تیسرا جگہ لے سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں