زکاة و صدقات ادائیگی یا مستحقین تک پہنچانا بھی ضروری؟
نقاش نائطی
۔ +9665677707
کیا اپنے زکاة و صدقات کو ہم صحیح معنوں مستحقین تک پہنچا رہے ہیں؟دینی مدارس کی نقلی رسیدیوں کے ساتھ صاحب ریش بزرگ نما مسلمانوں کے ہاتھوں، حقوق غرباء و مساکین کے اموال کی ڈاکہ زنی، کیا روکی نہیں جانی چاہئیے؟ ایسے پرآشوب مسلم منافرتی سنگھی مودی یوگی دور حکومت میں، جہاں آر ایس ایس بی جے پی و دیگر شدت پسند مذہبی جماعتوں کے ہزاروں لاکھوں کیڈر مسلمانوں کا روپ دھارن کئے،
براہ راست مسلمانوں کی نکالی جانے والی زکاة و صدقات کی ایک بڑی رقم پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے، اسے ہم مسلمانوں ہی کے خلاف استعمال کرنے کے لئےکوشاں ہیں، وہیں دینی مدارس کے لیٹر ھیڈ تعارفی خطوط و مدرسہ کی رسیدوں کے ساتھ، اپنی سفید ریشی کا استعمال کرتے ہوئے،عام مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ہتھیار بنا، لوٹ کھسوٹ کرنے والے، میر جعفر و میر صادق کی بھی کمی نہیں ہے مسلم معاشرے میں
۔ اوراب اس سنگھی مودی حکومتی،ہر طرف مچی لوٹ کھسوٹ درمیان، ایسے مسلم مدارس کے چندہ خوروں سے بھی اوصولی میں شراکتی حصہ داری کے ساتھ، ایسے مسلم لٹیروں کو بھی سنگھی درندوں کا ساتھ حاصل ہونے کی خبریں ہیں تاکہ ان کے پکڑے جانےکے بعد،عوامی عتاب سے انہیں بچانے، اور حکومتی اعتبار گرفت میں لئے جانے کے بہانے، ان کو آزاد کرانے ہوئے، کسی اور علاقے میں کھلی لوٹ کے لئے انہیں چھوڑا جاسکے۔
ویسے بھی،شمالی ھند کے دور دراز مدارس اسلامیہ کو بیٹھے بٹھائے اپنی اوصولی کا دس بیس فیصد حصہ دینے کے قرار کے ساتھ، کبھی کسی بھی علاقے سے کسی کے بھی تصدیق طلب کئے جانے پر، تصدیق کروانے کے ان کے عہد بعد ، یہ درویش نما وجیہ شکل و صورت والے سفید ریش مدرسہ چندہ اوصولی کرنے والوں کا ایک وسیع ریکٹ زمانے سے سرگرم عمل پایا گیا ہے۔ اس لئے آج کے اس وقتی مادی فائیدے کے لئے لوٹ کھسوٹ مچے معشیتی پس منظر میں، کوئی بھی قابل بھروسہ نہیں رہا ہے
ہمارے نکالے زکاة و صدقاة کے جتنے بھی مستحقین اللہ کے رسول ﷺ نے بتائے ہیں ان میں تالیف القلوب( نؤ مسلم کی معشیتی ضروریات کو پورا کرنا)، ترویج دین کے لئے دینی تعلیمی مدارس کی مدد و نصرت کرنا، کے ساتھ ہی ساتھ غرباء و مساکین کی داد رسی سب سے اہم جز ہے،ہمارے اپنے قریب و دور کے رشتہ داروں میں سے، یا پاس پڑوس، ہمارے گھر کے پچھواڑے یا گلی محلے میں یتیم و مسکین بھوکا سونے پر مجبور رہے
اور ہم بے خبر عیش و عشرت کی زندگی جیتے رہیں تو یقینا کل قیامت کے دن ہم سے ان فقراء و مساکین کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ اسلئے ہماری نکالی گئی زکاة و صدقات کی رقوم، زکاة کی مد میں بظاہر مستحقین میں سے نظر آنے والے، کسی بھی ‘ایرے غیرے نتو خیرے’ میں سے،کسی ایک کو تھماتے ہوئے زکاة ادائیگی کی اپنی ذمہ داری سے ہم سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں۔
اس لئے چاہئیے کہ صرف کسی کے دینی لبادہ و ظاہری سفید ریشی سے متاثر ہوکر، ترویج دین ہی کے بہانے، اپنی بیش و بہا دولت کے، حصہ زکاة کو یوں کسی انجان لوگوں کے حوالے کرنے کے بجائے، اپنے قریبی و دور کے رشتہ داروں میں سے یا آس پاس پڑوس گھر کے پچھواڑے گلی محلے کے غرباء و مساکین وحقیقی ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی زکاة و صدقات دینے سے، یقینا ہمارے زکاة و صدقات ادائیگی، ہمارے تصور سے زیادہ ہمیں خیر و برکات دلانے کا موجب بن سکتی ہے۔
دنیوی اعتبار سے شئر مارکیٹ میچوئل فنڈ سرمایہ کاری ہماری ذرا سی ہوشیاری، ہمیں کئی گنا زیادہ منافع دے جاتی ہے،تصور کریں ہمارے زکاة فنڈ کے ہزار روپے کسی بھی ایرے غیرے کو اسکی ظاہری سفید ریشی دیکھ، ترویج دین ہی کی نیت سے ہم انہیں دے دیتے ہیں تو، ادائیگی زکاة کے حق ذمہ داری سے گو ہم سبکدوش ہوجائیں گے لیکن ہماری ذرا سے کوشش سے ہم اپنے رشتہ داروں میں سے یا اپنےآس پاس کے لوگوں میں سے کسی ضرورتمند کو تلاش کر، اس تک اپنی زکاةو صدقات کو پہنچائیں گے
تو یقینا وہی ہمارے دئیے زکاة و صدقات کی رقم، دنیوی شئر مارکیٹ ہمارے تصورات سے زیادہ منافع ہمیں دئیے جیساہی، کل قیامت کے دن ہمیں یقینی طور ہمارے تصورات سے زیادہ اپنے رب سے اجر ثواب دلواتے ہم پائیں گے۔ انشاءاللہ۔اس لئے کوشش رہے اپنی نکالی زکاةو صدقات کی رقوم کو اس کی ادائیگی ایک بوجھ تصور کرتے
اس بوجھ سے سبکدوش ہونے ہی کی خاطر اسے مستحقین تک پہنچانے والوں کے حوالے کرنے کے بجائے، ہم آپ کی اس گاڑھی کمائی کے حصے کو، واقعتا صحیح معنوں غرباء و مساکین مستحقین تک پہنچانے کی ہماری سعی انشاءاللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیگی۔ بلکہ ہمیں ہمارے تصورات سے زیادہ آخرت کا اجر و منافع دیجائے گی۔ انشاءاللہ