توبہ کا دروازہ 124

خون کی بارش

خون کی بارش

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

ایک وقت تھا جب مصر میں مشہور ڈانسر فیفی عبدو کا طوطی بولتا تھا اس کی ایک ایک ادا اور اشارے پرلوگ قربان ہوہوجاتا کرتے تھے وہ بہت باا اثر خاتون تھی حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس تک فیفی کے ٹھمکوں کی زد میں تھے۔ آج پاکستان اور بھارت ،کئی خلیجی ممالک میں نہ جانے کتنی جل پریوں نے اپنے حسن کے لشکاروں سے بارسوخ شخصیات کی آنکھوںکو چندھیا کررکھ دیاہے

پاکستان میں صندل خٹک،حریم شاہ ،ایان علی اور اس مزاج اورقماش کی عورتوںکی کہی ان کہی کہانیاں ہرزد ِعام ہیں جنہیںلوگ چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیںیہ 1998 ء کی ایک شام کاذکر ہے جب فیفی عبدو نے قاہرہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد تھک گئی منورنجن کے لئے اس نے بار کا رخ کیا پھرشراب کے پیگ پرپیگ پینے کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھی الٹی سیدھی حرکتیں کرنے کے بعد اس نے بار میں ہنگامہ کھڑا کر دیاکپڑے اتارپھینکے لوگ اس کی حرکتوںسے محظوظ ہونے لگے

عام حالات میں جن لوگوںکووہ اپنے پاس پھٹکنے کی اجازت نہیں دیتی تھی وہ بھی حیلوںبہانوںسے بے حسن ِ بے حجاب ہونے پراس کو سہارا دینے کی کوشش کررہے تھے ، ہوٹل میں وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور پولیس آفیسر فوری وہاں پہنچ گیا،اس نے بڑے مودبانہ انداز میں فیفی سے کہا کہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں

اس طرح کی حرکتیں آپ کو زیب نہیں دیتی۔ فیفی عبدو نے اس کوگالیاں دینا اوربدتمیزی شروع کردیں یہ آفیسر خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کیلئے مشہور تھے اس ہوٹل میں قیام کرنے والی اہم شخصیات انہیں پسند کرتی تھیں کہ وہ ایک فرض شناس آفیسر تھے۔ فیفی عبدو بے ہنگم اندازمیں لہک،لہک اور مٹک مٹک کر ڈانس کرناشروع کردیا تھا پولیس آفیسرنے بڑی مہذب اندازمیں سمجھاناچاہا لیکن ام الخبائث نے فیفی عبدو کے دل ودماغ پر قبضہ کررکھاتھا اسے پولیس آفیسر کی مداخلت پسند نہ آئی اس نے نشے کی حالت میں ہی اعلی ایوانوں کا نمبر گھمایا اور پولیس آفیسر کا کہیں دور تبادلہ کروادیا۔
جب فیفی عبدو کا نشہ اترا اس کی ایک ملنے والی نے اسے گذشتہ روز کا تمام ماجرا سناتے ہوئے اس کی کارستانیوںکی موبائل ویڈیو دکھائی فیفی عبدو نے کو اپنے کئے پر بے حدپشیمانی ہوئی اس نے ہوٹل انتظامیہ سے پولیس آفیسر کے متعلق پوچھا اسے بتایا گیا کہ آپ نے اس کا تبادلہ کروایا ہے فیفی نے فون گھمایا اور اسی بااثرشخصیت کو پولیس آفیسر کو واپس ہوٹل رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔
پولیس آفیسر نے

متعلقہ وزیر کو اپنا استعفیٰ پیش کردیاان دنوں وجدی صالح وزیر ہوتے تھے وزیر نے حیرت سے پولیس آفیسر سے پوچھا کہ اس ہوٹل میں ڈیوٹی کرنے کیلئے پولیس آفیسر بڑی بڑی سفارشیں کرواتے ہیں آپ کو دوسرا موقع ملا لیکن آپ استعفی پیش کر رہے ہیں؟ آخرکیوں؟
اس نے جوکہا وہ فریم کرواکر ایونوںمیں کہیں لگانے کے لائق ہے۔پولیس آفیسر نے تاریخی جواب دیا “جس ملک میں ایک شرابی عورت کے اشارے پر ٹرانسفر اور ایک رقاصہ کے حکم پر واپسی ہوتی ہو اس ملک میں کسی غیرت مند کا رہنا عار اور عیب ہے”۔چند ماہ بعد اس آفیسر نے مصر ہی چھوڑ دیا آج وہ امریکہ میں اپنے بڑھاپے کے دن خوشی سے گزار رہا ہے۔
یہ صرف مصر کی کہانی نہیں ہے یہ ہمارے ہر غریب دیس کی کہانی ہے،یہ میرے ملک کی بھی کہانی ہے یہ آپ کے ملک کی کہانی بھی ہوسکتی ہے اوریہ ہراس ملک کی کہانی ہوسکتی ہے جہاں اخلاقی قدریںدم توڑ رہی ہوں ۔ جہاں انفرادی اور اجتماعی غیرت مر چکی ہو جہاں لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں

وہ فورا اپنا علاج کروائیں زندہ قوموںکے کچھ اصول ہوتے ہیں ہم ذرا غورکریں آپ کو خودبخود اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کہانی کس ملک سے مماثلت رکھتی ہے فیفی عبدو کے مزاج اورقماش کی عورتوںکی کہی ان کہی کہانیاں ہمارے اردگردبکھری پڑی ہیں جن کے لئے قانون موم کی ناک ہے اور بدبودارمعاشرہ نہ جانے کتنے کردارایمان،قانون،اخلاق ،ضابطے ان کے قدموںمیں نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہروقت تیاررہتے

ہیںیقینا یہ وہ صاحب ِ اقتدارہیں جن کے دل سیاہ اور دماغ جذام زدہ ہیں وہ جب تلک معاشرے میں کوڑھ کاشت کرتے رہیں گے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی نظام کی تطہیرکے لئے امام خمینی کے نظرئیے پر عمل کرنا ناگزیرہوچکاہے جب تک خون کی بارش نہ ہواس بدبو دار معاشرے کا آسیب جل کربھسم نہیں ہوسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں