توبہ کا دروازہ 121

عبرت کا جہاں

عبرت کا جہاں

جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی

ایک قدیمی چرچ کے خوبصورت بڑے سے ہال میں ایک میت تابوت میں رکھی ہوئی ہے دنیا بھر سے VVIP مندوبین سوگوار کھڑے ہیں ان میں سے درجنوں اینے اپنے ملک کے صدر، وزیر ِ اعظم یا آرمی چیف ہیں، بیشتر اتنے مالدار کہ اپنی ہر خواہش کو پورا کرنے پر قادر ہیں وہ باری باری مرنے والے کا آخری دیدار کررہے تھے

یہ میت ان کے روحانی و مذہبی پیشوا پوپ جان پال کی تھی تعزیت کرنے کیلئے آنے والے دنیا کے انتہائی با اثر لوگ۔۔ جن کے ایک اشارۂ ابرو پر تیسری دنیا کے ممالک اور ان کے سربراہان کی تقدیر کا فیصلہ ہو نا چھوٹی سی بات ہے ۔۔ جنگ یا امن ان کی خواہش کا نام تھا اس وقت یہ سب انتہائی بے بس تھے۔ یہ سارے کے سارے مل کر بھی آنجہانی کو چند سیکنڈ زندگی یا گنتی کی کچھ سانسیں نہیں دے سکتے تھے

یقینا قدرت اور فطرت کے سامنے ان کی ایک نہیں چل سکتی۔وہ ایک سخت گیر حکمران کے طورپر مشہور تھا ۔۔ دنیا کا امیر ترین بادشاہ۔۔۔ مخالفین کیلئے معافی کا لفظ اس کی لغت میں نہیں تھاجہاں سے سورش کی افواہ بھی ملتی یا کسی سے کوئی خطرہ محسوس ہوتا بے رحم اپریشن کے ذریعے ان کو کچل دیا جاتا عراق میں کئی مقامات پر اجتماعی قبریں اس کی درندگی کی واضح نشانیاں تھیں جب امریکہ نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیریں تو سخت گیر حکمران صدام حسین کیلئے اپنا ہی ملک اجنبی بن گیا

اتحادی فوجوںکی یلغار کے بعد اسے چھپنے کیلئے بہروپ بدلنا پڑا اس دوران اس کے بیٹوں کو قتل کردیا گیا جب صدام حسین کو گرفتار کیا گیا تو اس پر عوام کے قتل ِ عام اور جنگی جرائم کی پاداش میں مقدمہ چلایا گیا اور آخر کار موت کی سزا سنائی گئی عید کے روز جب اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا اس نے کما ل جرأت سے پھانسی کا پھندہ خود اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں ڈال لیا جلادنے لیور دبایا اور وہ رسے کے ساتھ ہوا میں جھول گیا بے پناہ اختیارات، مال و دولت اور بادشاہت پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے
ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی کو کون نہیں جانتا کئی صدیوںتک اس کا خاندان حکمرانی کرتا آرہاتھا اس کے دور میں اختلاف رائے بھی جرم تھا مخالف تو مخالف چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب آیا تو سب کچھ ختم ہوگیاشہنشاہ ِ ایران کے سب سے بڑے دوست امریکہ نے بھی اس سے نگاہیں پھیر لیں اسے زندگی بچانے کیلئے فرارہونا پڑا۔اس کا جہاز سمندر پر کئی گھنٹے پرواز کرتا رہا ،چکر لگاتا رہا دنیا کا کوئی ملک اسے پناہ دینے کیلئے تیار نہ تھا
چند سال پہلے پاکستان میں سیاہ و سفیدکے مالک ۔۔ طاقت کے نشے میں چور مخالفین کو مکے دکھا اور لہرا کر ان کا ناقطہ بند کرنے والا بر ملا کہتا پھرتا تھا ۔۔میں کسی سے ڈرتا وڑتا نہیں ہوں ۔۔اس کے ایک اشارہ ٔ ابرو پر ایک منتخب وزیر ِ اعظم کو جلاوطن کردیا گیا تو کسی نے چوں چراں تک نہ کی اس وقت ڈکٹیٹر کے حامی اسے دس دس بار باوردی صدر منتخب کروانے کا دعویٰ کرتے رہے خود موصوف وردی کو اپنی کھال قراردیتے رہے

اور طاقت کے زعم میں انہوںنے کبھی لال مسجد کو خون سے رنگین کروایا تو کبھی ملک میں ایمرجنسی لگا کر عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کرڈالا۔میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کی وفات پر تدفین کیلئے ان کی فیملی کو وطن آنے کی اجازت نہ دینے والے پرویز مشرف کا حال بھی سب کے سامنے ہے اسے پہلے بیرون ِ ملک جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی اب وہ بیرون ملک ہیں تو وطن واپس آنے سے گھبراتے ہیں اسے کہتے ہیں مکافات ِ عمل جس کا شکار ہرحکمران ہوتاہے پھر بھی کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا یا یہ بھی ہو سکتاہے کوئی عبرت حاصل کرنا ہی نہیں چاہتا۔
پانامہ سکینڈل میاںنوازشریف کا تیہ پانچا کرڈالا تین بار وزیر ِ اعظم منتخب ہونے والا کرپشن کے الزام نااہل ہوگیا کرپشن کی کمائی سے اربوں کھربوں کی جائیدادبنانے والے کی اہلیہ کی تدفین کے وقت بھی اس کے بیٹے میت کے ساتھ نہیں آئے اب موصوف جعلی میڈیکل رپورٹس پر لندن ’’مفرور‘‘ ہوگئے پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ ان کی بیماری سب ڈرامہ ہے اگر یہ حقیقتاً بیمار ہوتے بھی ہیں تو تو بیٹی مریم صفدر خیریت دریافت کرنے بھی نہیں جاسکتی وہ پاکستان میں ہوںتو بیٹے گرفتاری کے ڈر سے نہیں آسکتے

اس سے زیادہ ہم نے اپنی زندگی میں عبرت کا مقام نہیں دیکھا۔کئی عشروں سے ایک اور پاکستانی سیاستدان آصف علی زرداری کی کرپشن کے قصے کہانیاں مشہورہیں اب سابق صدر جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے میگاریفرنسزمیں ملوث ہیں ان کی ہمیشرہ اور اکلوتے بیٹے پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں یہ کتنی عبرت ہے کہ جس بیٹے کا مستقبل درخشندہ و تاباں ہوسکتاتھا وہ بیٹا اپنے باپ کی کرپشن کا دفاع کرتا پھرتاہے ۔
پاکستان میںایک صاحب اور ہیں جن کا تکیہ کلام ہے میں نے دھیلے کی کرپشن بھی نہیں کی لیکن حیرت ہے اس کاپورا خاندان کرپشن کے الزامات میں نیب کی پیشیاں بھگت رہاہے ایک بیٹا اسی الزام میں جیل میں تھا ایک اور صاحبزادہ اپنے بہنوئی کے ساتھ ملک سے فرارہے اللہ تعالیٰ نے ایک عام سے خاندان کو 35سال اس ملک کی حکمرانی عطا کی لیکن یہ لوگ کیا نکلے؟اندرا گاندھی،ذوالفقارعلی بھٹو،

شیخ مجیب الرحمن کے خاندانوںکا حال بھی سب کے سامنے ہے یہ تینوں سیاسی گھرانے اپنے اپنے ملک کی سیاست میں انتہائی پاورفل تھے آج عبرت کے مثال بنے ہوئے ہیں ان تینوں خاندانوں میں ایک بھی مرد زندہ نہیں ہے البتہ بھٹو جونیئر خودساختہ جلاوطن ہیںاور ایک اطلاع کے مطابق کلبوںمیں ناچتے پھرتے ہیں آئیے ہم سب اپنے دل سے ایک سوال کریں اور عبرت کسے کہتے ہیں یہ چند مثالیں ہیں۔۔ اپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھنے والوں کی بے بسی کے کچھ نمونے ۔۔کچھ بھولی بسری یادیں

یا عبرت کا ایک جہاں ۔۔ ہم غور کریں تو محسوس ہوگا ہمارے ارد گرد ان گنت ایسی ہی کہانیاں بکھری پڑی ہیں لیکن دولت کی خماری اور اختیارات کے نشہ میں مخمور لوگ اب بھی نہیں سمجھتے وہ شایداس خیال میں ہے کہ ان کا یہ موج میلہ سدا لگا رہے گا دفتروں میں بیٹھے فرعون بنے افسر عوام کو گھاس ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے ،

اور تو اور چھوٹے اہلکاروں سے گزٹیڈ افسران تک ایک سے ایک بڑا نکھٹو، ہڈ حرام اور کام چور موجود ہے شاید اسی لئے برصغیر ترقی نہیں کررہا، تھانہ ،کچہری میں انصاف کے لئے بلکتے بلبلاتے عام آدمی کا کوئی پرسان ِ حال نہیں عوام اپنے بنیادی حقوق کیلئے ذلیل و خوار ہورہے ہیں لیکن حکمرانوںپر جوں تک نہیں رینگتی اشرافیہ عوام کو خجل خوار کرنا شاید اپنا حق سمجھتی ہے

یہ لوگ نہ جانے کس مستی میں گم ہیں تیرسی دنیا کے بیشترحکمران شیخ چلی کی طرح زبانی جمع خرچ کے بہت سے منصوبے تیار کرتے ہیں فائلوں میں غربت کے خاتمہ کے حیرت انگیر اعدادو شمار کابھی اندراج بھی کیا جاتاہے اور مزے کی بات یہ ہے حکمران ان پر اتراتے پھرتے ہیں لیکن عملاً آج تک کوئی ٹھوس حکمت ِ عملی یا بہتر منصوبہ بندی کی ہی نہیں گئی

کوئی حکمران یہ نہیں سوچتا کہ اگر یہ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا درست ہوتا تو جنوبی ایشیاء میں غربت کی شرح کم ہونے کی جائے زیادہ کیوں ہوتی جارہی ہے ۔ دنیابھر کے حکمران ا س بات کو یادرکھیں کہ وہ پوپ جان پال،صدام حسین،شہنشاہ ِ ایران یا کرنل قذافی سے زیادہ طاقتور ہیں نہ صاحب ِ اختیار ۔ اگر انہوںنے عام شہری کیلئے اب بھی کچھ نہ کیا ان کی دولت سے محبت ختم نہ ہوئی تو ایک ایک لقمے تو ترستے غربیوں کی محرومیاں بددعا بن جائیں گی۔اپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھنے والو !ایسا ہو گیا

تو پھر توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گاکروڑوں اربوں روپے بھی چند منٹ کی سانسیں نہیں عطا کرنے پر قادر نہیں لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات پر زندہ رہنے کیلئے انقلابی کام کرنا پڑتے ہیں باتیں نہیں ۔ لیکن دولت کے پہاڑ جمع کرنے کے باوجود مزید دولت کی ہوس اورہرقیمت پر حکمرانی کی خواہش نے نے غربت کو عوام کی بدنصیبی بنادیاہے تاریخ میں ہزاروں زندہ مثالیں موجودہیں یہ پھربھی صرف اپنے متعلق سوچتے ہیں یہ بھی عبرت کا مقام ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں