کیاقوم کو سیاسی انحطاط سے ماورا کیا جاسکتا ہے؟
تحریر : نقاش نائطی
۔ +966562677707
قوم و ملت میں سیاسی انحطاط وقت وقت سے ہوتا رہتا ہے لیکن ایسا ہوتا رہتا ہے یہ سوچ کر خاموش بیٹھے والے کبھی اپنی قوم کوسیاسی اعتبار سے کھڑا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اختلافات ختم کئےجانے کی تدبیریں ہوتی رہنی چاہئیے۔مختلف دھڑے بندیوں میں گرفتار لوگوں کے آپسی اختلافات کو دور کرنے کی سعی ہوتی رہتی چاہئیے اختلافات کی ابتداء ذاتیات سے گر شروع بھی ہوئی ہیں تو اس بارے میں عوامی آگہی
ضروری ہوتی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے ابہامات سے بچا جاسکے۔ مغربی معاشرہ اس اعتبار سے لائق تقلید ہے کہ دیر سویر کسی بھی معاملے کو طشت از بام کیا جاتا ہے تو اس نوع کے اسرار و رموزسے معاشرے کو آگاہ کیا جائے اور ہم مسلم قوم ہیں جو اپنے اختلافات کو جڑ سے ختم کرنے کے بجائے، وقتی طور مذہبی جذبات سے شرشار اختلافات ختم کئے،ترقی پزیری کی طرف رواں دواں ہونے کی سعی کرتے پائے جاتے ہیں۔
یہ ایک اچھی سوچ کی غماز پیش رفت ہوتی ہے لیکن سابقہ اختلافات کے رموز و اسرار کو سامنے رکھ کر اختلافات دور کرنے کی سعی گر کی جاتی تو اتفاق و آہنگی دیر پا رہنے کی امیدیں وابستہ رکھی جاسکتی تھیں
ابھی دو ایک روز قبل وی دی بھٹکلیس ڈبیٹ واٹس آپ گروپ پر موجودہ سیاسی معاشرتی سوچ بوجھ رکھنے والے دو معزز فرزندان قوم کی طرف سے آئی مختلف آراء کی سیکھ لیتے، اس موضوع کو اہل علم و تفکر قوم کے درمیان موضوع بحث بناتے ہوئے، قومی سیاسی انحطاط سے قوم کو نکالنے ہی کی نیت سے،
قوم نائط کو ایک مرتبہ پھر سیاسی اکھاڑے مقابلہ آرائی طرف مائل کرنے، ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ہمیں امید ہے مدبران قوم اسے منفی کے بجائے مثبت انداز لیتے ہوئے قوم کوسیاسی انحطاط سے ماورائیت دلوانے، کوئی ٹھوس اقدام کرینگے۔آخر میں انکی اراء کو ہم من و عنایت نقل کئے دیتے ہیں
جہاں تک سیاسی قائد قوم المحترم ایس ایم یحیی مرحوم کی انتخابی ہار کا تعلق ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ انکی ہار قومی سطح پر،کسی کی سازش کا نتیجہ تھی۔ انکی ہار کے بعد کچھ کم ظرفوں نے شہر بنگلور میں ذاتی طور خوشیاں گر منائی بھی تھیں تو ان کی ذاتی کم ظرفی کی سزا انہیں بعد کے دنوں میں مل بھی چکی ہیں۔
جہاں تک اس سمت ہمارے تفکر کا تعلق ہے، اس وقت یحیی صاحب مرحوم کی انتخابی باگھ دوڑ سنبھالے بعض ذمہ دار احباب کی ناسمجھی اسے کہیں یا انتخاب جیتنے،ان کے بلاکے اعتماد کا نتیجہ، جو انہوں نے اس وقت بعض ‘مدبران سیاست قوم’ کی ہدایات پر عمل آوری میں نہ صرف کوتاہی برتی تھی بلکہ انکی مثبت آراء کو سرے سے خارج کرتے ہوئے یحیی مرحوم کی سیاسی ہار کے موجب بنے تھے۔
ہمیں یاد پڑتا ہے منکی کے اطراف شیروگار کمیونٹی کے افراد کا ووٹ جسے کانگریس کی جھولی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، ہوناور ندی کے اس پار کانگریس کے خلاف تھا لیکن اس پار اپنے آپ کو کانگریس کی تائید میں بتاتے نہیں تھکتا تھا یقینی طور پر وہ کانگریس کے خلاف یحیی مخالف جانے والا ہی تھا۔اس کی اطلاع ایک دن قبل انتخابی تجزیہ دان، مفکرین انتخابی کمیٹی تک پہنچائی بھی گئی تھی۔
کسی مدبر نے جو بعد کے دنوں میں قائد قوم بنائے گئے تھے،یہ رائے دی تھی کہ ان ایام دور دراز دیہاتوں سے ان شیروگار ووٹروں کو پولنگ بوتھ نہ لایا جائے تو ہمارے اپنے ان ووٹوں کو حریف کے پالے میں پڑتے ہوئے،دوہرے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے بعض دانشوروں کی اسے لغزش کہا جائے یا باوجود متنبہ کئے جانے کے، ان کی اس سمت ضد پر منحصر کہا جائے، جو اس وقت یحیی مرحوم کی سیاسی موت کا باعث بنی تھی۔ ہمیں یاد پڑتا ہے انتخابی شام شمس الدین سرکل کے قریب اس وقت مدبرانہ سیاست کے تجارتی مرکز ویسٹ کوسٹ میں جہاں تقریبا تمام ذمہ داران انتخاب،
پڑے ہوئے ووٹوں کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے، ممکنہ جیت کے تجزیات تیار کررہے تھے ۔ قرب و جوار کے تقریبا تمام اعداد و شمار آچکے تھے۔ اس وقت ہمارے اسمبلی حلقہ کے آخری سرے منکی اطراف کے ووٹوں کی تفصیل آنی تھی۔ ان ایام لاسلکی ٹیلیفون و موبائل سروسز کی عدم دستیابی تناظر میں، المحترم مسعود کولا صاحب اپنی بلٹ پر دھک ڈھک کرتے جونہی منکی اطراف کے پڑے ہوئے ووٹوں کی تفصیل لے آئے، ہمارے مدبران قوم نے اسے یحیی مرحوم و مخالف امیدوار کے حصے میں کچھ اپنے تفکراتی اندازے مطابق بٹوارہ کیا اور حاصل نتیجہ دیکھنے کو کہا گیا۔
کیلکولیٹر پر محاسبہ کے بعد محتاط انداز ہی سے کچھ ہزار ووٹوں سے یحیی صاحب کی ممکنہ جیت کا نہ صرف اعلان کیا گیا بلکہ لڈو منگوا کھائے بھی گئے مدبران سیاست کے ساتھ انتخابی ورکرز کا مجمع چھٹنے کے بعد، ہم نے اس وقت کے سلجھے ہوئے سیاسی لیڈر جناب ڈی ایچ شبر صاحب سے جو بعد کے دنوں میں سیاسی قائد قوم بن چکے ہیں ان کا انتخابی نتائج تجزیہ مانگا تو انہوں بس اتنا کہا کہ منکی شیروگار کے
ووٹ کتنا حصہ یحیی صاحب کے پلڑے میں ڈالا گیا ہے، اسے یحیی مخالف پلڑے میں ڈالتے ہوئے دوبارہ جوڑا جائے تو انتخابی حاصل نتیجہ کچھ ایسا ہی آنے والا ہے۔ یقین مانئے قبل انتخابی نتائج اس سیاسی قائد کی پیش گوئی کردہ عدد ووٹ سے کچھ آگے پیچھے چند ووٹوں کے فرق سے دوسرے دن المحترم یحیی صاحب مرحوم انتخاب ہار چکے تھے۔ کاش کہ ایک دن قبل انکے سجھاؤ پر عمل کرتے ہوئے منکی شیروگار ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لانے لاریاں بھیجنے کے بجائے، ابھی بھیجتے ہیں ابھی بھیجتے ہیں،
ٹالتے ہوئے، آخر تک ان تک سواریاں نہ بھیجی ہوتیں تو یحیی صاحب جیت سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہماری قومی سیاسی موت واقع ہونے سے ہم بچ چکے ہوتے۔ مقدر کو ٹالا تو نہیں جاسکتا تھا لیکن کم از کم اس فاش انتخابی غلطی بعد تو اس قائد قوم کی سیاسی بصیرت سے ممکنہ استفادہ حاصل کیا گیاہوتا تو آج یہ قوم سیاسی یتیمی کا شکار ہونے سے بچ سکتی تھی۔ اس کے بعد قومی سطح پر ایک ایسی فکر نے جنم لیا کہ قومی سطح پر کوئی بھی قومی بھائی کسی بھی پارٹی سے اپنا سیاسی قد قائم ہی نہ کرپایا
اس پر پانچ سال بعد اگلے انتخاب میں جب یحیی صاحب کو کانگریس کی طرف سے انتخابی ٹکٹ محروم کیا گیا تو نہ صرف کرناٹک جنتادل پارٹی کی ہوا چلتے پس منظر میں، قوم کا متفقہ فیصلہ یحیی مرحوم کوکانگریسی ٹکٹ محروم کئے جاتے پیش نظر، کانگریسی امیدوار کو ناکام کرنے کے تفکرکے چتے، قریب تر امیدوار جنتا دل کو ساتھ دیتے ہوئے، کانگریس کی ہار پکی کئے جانے کا قومی فیصلے ہوتا
تو یقینی طور دانش مندانہ قومی فیصلہ ٹہرایا جاتا۔ ابتداء میں مجلس اصلاح و تنظیم کی سیاسی پینل میٹنگ میں ڈی اہچ شبر صاحب کو قومی سیاسی لیڈر تسلیم کر آزاد انتخاب لڑانے کا بالاتفاق لیا گیا تھا، لیکن مجلس اصلاح و تنظیم کے بالاتفاق لئے گئے فیصلے کے خلاف ، آدھے گھنٹے کے اندر، جناب ڈی ایچ شبر صاحب کو درکنار کرتے، ان کی جگہ پچھڑی جاتی کے شمبھو گوڈا کو بحیثیت قومی امیدوار انتخاب لڑانے کا ایک دو فردی فیصلہ،دراصل قوم نائط کی سیاسی موت کا باعث بنا تھا۔ افسوس ہوتا ہے
قوم میں ہمیشہ سے ایک دو با اثرافراد ہمہ وقت پائے جاتے ہیں جو قوم کو، اپنے لئے بالاتفاق لئے فیصلے کے خلاف عمل پیرا رہنے پر مجبور کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ جو رجحان قوم میں پایا جاتا ہے یہی اصل میں قومی سیاسی تنزلی کا اصل سبب بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ اسلئے کہ اسلامی اقدار سے سرشار اس قوم نائط کو، ایک دو افراد اپنے عوامی گرگوں کی مدد سے، اپنے مشاورتی فیصلوں سے ماورا رکھنے میں صدا کامیاب رہتے ہیں
مجلس اصلاح و تنظیم کی بین الجماعتی کانفرنس، ویناڈ کالیکٹ کے بالاتفاق طہ شدہ فیصلے “ذاتی نوعیت سے قوم کا کوئی بھی فرزند کسی بھی سیاسی پارٹی کے واسطےسے،اپنا سیاسی قد بڑھاتے بڑھاتے قومی سیاسی نیابت کے مقام متمیز تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے تو پوری قوم اس کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی
طرح کھڑی پائی جائیگی” کچھ وقفے توقف بعد، فرزند قوم عنایت اللہ شاہ بندری صاحب، صرف اور صرف اپنے عوامی خدمات بل بوتے پر، جنتادل کا انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور مجلس اصلاح و تنظیم کانفرنس فیصلے کے پیش نظر، ایک حد تک پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی پائی بھی گئی تھی، لیکن کیا واقعتا” پوری قوم دل و جان سے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے، ان کی پشت پر کھڑی پائی گئی تھی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر بعد میں کبھی سنجیدگی ساتھ تدبر و تفکر ہی نہیں ہوا ہے۔
ایسے مختلف رکنی سیاسی مقابلوں میں، کسی بھی امیدوارکے لاتسخیر ہونے کی تشہیر جتنے بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اس سے آخری لمحات تک غیر فیصلہ کن ووٹوں کا رجحان اس کی طرف جاتے ہوئے، اس کی کامیابی کا ضامن بنا کرتے ہیں۔اس وقت کے سیاسی پس منظر میں، جہاں یحیی صاحب کی انتخابی ہار کے بعد سے، مسلسل جیت کر آنے والے، نامداری سیاست دانوں کی علاقے میں لوٹ مار دھماکا چوکڑی کےچلتے،
کسی بھی صورت نامداری امیدوار کو شکشت فاش دینے رجحان، مسلمانوں کے علاوہ دیگر علاقے کی چھوٹی ذات برادری میں بھی پایا جاتا تھا۔ ان تک عنایت اللہ،انتخابی جیت کا شہشوار نہیں ہے یہ تاثر چھوٹی ذات برادری تک پہنچانے ہوئے، اس وقت کے آزاد امیدوار منیکال ویدیہ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے، کن کن قومی بھائیوں نے، ان علاقوں تک جاکر کام کرتے ہوئے، عنایت اللہ کی جنتا پارٹی کے پکے سمجھے جانے والے پچھڑی جاتی گوڈا ووٹوں کو، صرف اور صرف نامداری امیدوار کو ہرانے ہی کے
جذبہ کے ساتھ، عنایت اللہ کو درکنار کر، آم کے آم گھٹلیوں کے بھی دام، آزاد امیدوار منیکال سے پیسے بٹورتے ہوئے، سات ایک ہزار گوڈا ووٹ کو منیکال کے پالے میں جانے پرمجبور کیا تھا؟ آخر کیوں قوم نے بعد انتخاب اس پر تجزیہ کرنے کی زحمت کبھی گوارہ نہیں کی تھی؟ عنایت لاتسخیر ہے یہ تاثر گر قائم رہتا تو،نامداری امیدوار کو ہرانے ہی کے لئے، سات ہزار کے قریب گوڈا ووٹ یقینی طور عنایت اللہ کو کامیاب کئے ہوتے؟
اور قوم کا آج کا سیاسی منظر نامہ ہی مختلف ہوتا؟ قوم کے بااثر افراد کے ایک طبقہ کو غالبا” یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی عام سا سیاست دان انتخاب جیت کر اتنا با اثر ہوجائے کی انہیں اس عام سے سیاست دان کو سلام مارنا پڑے؟ یہ وہ ہلکی سوچ ہے جو ہمیں قومی اعتبار سے کبھی مستحکم نہیں ہونے دیا کرتی ہے یہی وہ سوچ ہے جو مختلف اداروں میں مفید اور کارآمد عوامی لوگوں کے عام استفادہ سے
ماورا چند صاحب حیثیت لوگوں کے زیر نگین مقامی اداروں کو بھی رکھنے میں ممد ہوا کرتی ہےاور اسے مشیت ایزدی مان خانوش نہ بیٹھیں تو اور کیا کیاجاسکتا ہے کہ قوم اپنی مالی منفعت کے لئے انہیں کے آگے پیچھے صناخوانی پر مجبور پائی جاتی ہے؟آج کے منافرتی سنگھی مودی یوگی دور اقتدار میں جہاں مسلم ووٹوں کو بے وقت کر دکھانے کی سعی ناتمام ہورہی ہے۔ وہیں پر یوپی انتخاب میں مجلس اتحاد المسلمین کے
بھاگیہ داری مورچے کا چوکونی مقابلہ میں مسلمانوں کو انکے آبادی تناسب حقوق دلوانے کی سعی کرتے انتخاب لڑتا اقدام، یوپی انتخاب میں مسلم امیدواروں کی جیت سے زیادہ اپنی اہمیت دلوانے کی ایک کوشش کے طور دیکھا جارہا ہے۔ اور کبھی کبھی عام دکھائی دینے والی ہار میں بھی جیت پنہاں ہوا کرتی ہے ایسے میں اے آئی ایم آئی والے مسلم امیدوار دس سے پندرہ سیٹ پر بھی جیت درج کروانے کامیاب رہتے ہیں
تو اسے مسلم آواز کو ایوانوں میں گنجوانے ایک بہت بڑی جیت کے طور دیکھا جائیگا۔ اور توقعات کے حساب سے اگر بھاگیہ داری مورچہ دلت مسلم پچھڑی جاتی تمام کے تمام 50 کا اکڑہ بھی پارکرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اسے اگلے انتخاب 2024 ایک نئے زاوئیے سے لیا جانے کی امید ہے۔ بہرطور مودی یوگی کی مسلم دشمنی نے بھارت کے مسلمانوں کو سیاسی بصیرت جو عطا کی ہے، ایسے میں اپنے
رفاعی سرگرمیوں سے عوامی دلوں میں راج کرتے، نیشنل ڈیموکرئٹک فرنٹ اگر مناسب حکمت عملی کے ساتھ ابھی سے سیاسی پیش رفت منظم انداز شروع کرے تو یقینی طور بھارت میں مسلمانوں کا سیاسی مستقبل غیر محفوظ نہیں کہا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے اپنے علاقے کے مسلمان انتخابی یار جیت سے
اوپر اٹھ کر،صرف اور صرف اپنے مسلم لیڈر شب کھڑا کرنے کی سعی کرتے پائے جائیں تو یقینا مسلم لیڈر شب معاشرے کو ملتے ہوئے ہمیں اپنےحقوق دستیابی کے لئے، اغیار کے رحم و کرم پر منحصر رہنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ واللہ اعلم بالتوفئق الا باللہ
وی دی بھٹکلیس واٹس آپ ڈبیٹ گروپ مکالمہ