121

مغربی جمہوریت ایک دھوکہ ہے اصل جمہوریت اسلامی طرز حکومت ہے

مغربی جمہوریت ایک دھوکہ ہے اصل جمہوریت اسلامی طرز حکومت ہے

ابن بھٹکلی
۔ +966562677707

مجھے رہزنوں سے غرض نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے

فی زمانہ مغربی باشندے آج کے دور کی جمہوریت کو، ان کی ایجاد کردہ طرز حکومت جو سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ دیڑھ ہزار سال قبل اس وقت کی دو عالمی قوتیں روم(یورپ)و فارس (ایران) کی جاگیر ہوا کرتیں تھیں۔ جس وقت اپنی قوت حرب سپاہ انسانی و تیر وتلوار و نیزہ زنی کے بل پر، اپنی حکومتوں کی توسیع کے خواب بننے، انسانیت کا بے دریغ خون بہانا وقت کی ضرورت سمجھا جاتا تھا۔

ایسے پرآشوب دور میں عرب کھاڑی سے اسلام کا سورج طلوع ہوتا ہے ۔ اور کفرستان کی ظلمتین دم توڑنے لگتی ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک قلیل عرصے میں خاتم الانبیاء، سرور کونین مصطفی، حضرت محمد ﷺ کی پیشین گوئی، کہ”روم و فارس کے تخت و تاج تم مسلمانوں کے قدموں پر ہونگے” حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت تک دو تہائی عالم، اسلام کے زیر نگین آجانا ہے۔ ان ایام نہ آج کے دور جدید کے دور مار راکٹ و میزائل وڈرون جدید ترین لاسلکی ہتھیار تھے اور نہ ایٹم بم و ہائڈروجن بم تھے

اور اقوام متحدہ عالمی بنک جیسا کوئی عالمی ادارہ تھا جس سے ڈرا کر کچھ عالمی قوتیں پورے عالم کے ملکوں کو اپنا اسیر و غلام بنایا کرتی ہیں۔ اس وقت تو تلوار و تیر و نیزہ بردار گھڑ سوار و پیدل افواج انسانی سے، یلغار کر دونوں فریقین کے لامتناہی انسانیت کا قتل عام کرتے ہوئے، علاقے فتح کئے جاتے تھے اور ان ایام صرف تلوار و تیر و نیزہ بردار افواج سے پورے عالم کو زیر نگین کرنا ناممکنات عمل ہی ہوتا

اگر اسلامی افواج نے، اپنے امن و سکون و چین و شانتی والے رول ماڈل شہر “مدینہ کو تمثیلا” سامنے رکھتے ہوئے، محبت ایثار و قربانی والے دین اسلام کی دعوت عام کرنے کا تہیہ نہ کیا ہوتا اور قتل و غارت گری جنگ و جدال و قتل عام انسانیت سے تنگ آئی انسانیت کو ایک مثالی، “عوام پر عوام کی حکومت سازی” کا “اسلامی جمہوری نظام” نہ دیا گیا ہوتا!

یہی وہ دور خلافت حضرت عمر بن خطاب رض تھا جن کے عدل و انصاف طرز حکومت سے قیصر و کسری کے ایوان لرزہ باندام ہوجاتے تھے۔ اور اس وقت کے مسیحی و یہودی سلطنت یروشلم فلسطین، اپنے ایک غلام کو اونٹ پر بٹھائے، خود اونٹ کا رکاب پکڑے نہتے یروشلم میں داخل ہونے والے،حضرت عمربن فاروق رض کے ہاتھوں بغیر لڑے اپنی حکومت سپرد کرنے راضی ہوگئے تھے۔

عالمی سطح پر عدل و انصاف کے لئے مشہور خلافت حضرت عمر بن خطاب رض کے نامزد ملک شام کے ایک علاقے “حمص” جسے”کوَیفہ” بھی کہا جاتا ہے،کے گورنر سعید بن عامر کی ایسی داستان حکومت جو فی زمانہ مغربی جمہوریت نواز حکومتوں کو بھی ورطہ حیرت میں مبتلا کرنے کافی ہو ،فی زمانہ جدت پسند، اپنی مرضی کے شاہان و نازی ہٹلر نما ڈکٹیٹرانہ حکومتوں کو جلا بخشنے والی اور اپنی مرضی کے خلاف والی عوامی مقبولیت حکومتوں کو بھی اپنے زعم سے روندتے ہوئے اسے ختم کرنے والی،

نام نہاد جمہوریت کو خوب اچھی طرح جانچنے اور پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دیڑھ ہزار سالہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن فاروق رض سے شروع ہوئی اور مختلف مدوجزر سے گزرتی، اب سو سال پہلے عالمی یہود و نصاری سازشوں کے چلتے ختم ہوئی،خلافت عثمانیہ والے “طرز اسلامی جمہوری خلافتی نظام” کے روشن پہلوؤں پر بھی نظر رکھی جائے، مطالعہ کیا جائے اور پھر تقابل کیا جائے کہ کونسی جمہوریت،

آج کی خود ساختہ عالمی سربراہ امریکہ والی جمہوریت اچھی ہے یا صحیح معنوں عوام کی عوام پر اصلی حکومت “اسلامی جمہوری نظام” اچھا ہے دیکھا اور پڑھا جائے اور پھر اسے کسی بھی نام سے “خلافت” کہیں یا “نظام صدارت” اپنے اپنے مسلم اکثریتی ملکوں میں اسے نافذ العمل کرنے کی کوشش کی جائے، تاکہ “اسلامی جمہوری نظام حکومت” کو دیکھتے ہوئے یہ صیہونی و نصرانی ریاستیں خود اپنے عوامی ہاتھوں سے روند دی جائیں اور اسلامی جمہوریت خود آنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔

یہ سفر دشوار گزار ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ جس طرح ڈیڑھ ہزار سال قبل، اس وقت کے فن و حرب تیر و تلوار نیزہ بردار گھڑ سوار و پیدل سوار انسانی دستوں پر اس وقت کے مسلمانوں نے عبور حاصل کیا تھا آج فی زمانہ رائج آلات حرب بمبار طیارے کہ لاسلکی ڈرون سازی و میزائیل سازی، اس میں ہم مسلم حکومتوں کو مہارت و یکتائی حاصل کرنی ہوگی، تب پھر عالم کی اپنے آپ کو سربراہ عالم کہنے والی قوتیں ہم مسلمانوں کے سامنے ھیج تر ہوتے ہوئے، اپنے ہتھیار ڈالتے، اسلامی جمہوری نظام کو اپنانے پرمجبور ہوتی پائی جائیں گی۔ عالمی طاقتوں کے حربی گٹھ جوڑ کو نہتی افغانی افواج نے،

اپنے ایمانی جذبے جہاد سے جس بے دردی سے شکشت فاش دیتے ہوئے انہیں شب کی تاریکیوں میں بھاگنے پر مجبور کیا ہے اس کی تمثیل افغانیوں نے عالم کے سامنے پیش کردی ہے اور اب عالم کی پہلی قوت اور خلافت عثمانیہ کی باقیات پاکستان و ترکیہ کے،جدت پسند آلات حرب لاسلکی ڈرون سازی و میزائل سازی وخطرناک ترین بمبار طیارہ سازی مہارت سے، مستقبل قریب میں اپنے اپنے یہاں “صحیح اسلامی جمہوری نظام”، “صدارتی نظام” ہی کے رنگ و روپ میں نافذ کرنے کامیاب رہیں گے تو پھر عالم کے اور ملکوں کے لئے، اسلامی جمہوریت کو اپنانا، ناگزیر ہوجائے گا۔ وما علینا الا البلاغ

تاریخ کے اوراق سے ایک باب

سعید بن عامر جمحی ایک صحابی رسول تھے۔ سعید بن عامر جمحی بھی سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسول خبیب بن عدی کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے “اگر تم لوگ چاہوتو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو” پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا” پھر سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔ “کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے” تو خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)

واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں ہے کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور ان کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے” اور یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مار ڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا “خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،

انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ” پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔ نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکے۔ وہ سوتے توخواب میں ان کو دیکھتے اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتے۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا

کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے

اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔ خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔

اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیاوہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبود ان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔

اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ اور غزوہ خیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے

تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ دونوں جانشین ان کی نصیحتوں کو بہت غور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں پر پورا پورا دھیان دیتے تھے۔

ایک بار وہ عمر فاروق کے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا: عمر: میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہئے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو” انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے

فرمایا: عمر: دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں” سعید! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟

عمر نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔ یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے” سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ “عمر میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے” سعید نے جواباً عرض کیا۔

ان کا یہ جواب سن کو عمر رض اللہ عنہ نے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: “خدا تمہارا بھلا کرے تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، خدا کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا” پھر عمر نے حمص کی گورنری ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا:* *”میں تمہارے لیے تنخواہ مقرر کردوں؟” “امیر المومنین! مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

بیت المال سے جو وظیفہ مجھے ملتا ہے وہ میری ضروریات سے فاضل ہے” سعید نے کہا اور وہ حمص کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اہل حمص کے کچھ قابل اعتماد لوگوں پر مشتمل ایک وفد عمر کی خدمت میں باریاب ہوا۔ عمر نے ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے یہاں کے فقرا اور حاجت مندوں کے نام لکھ کر دے دو تاکہ میں ان کی ضروریات کی تکمیل کا کوئی بندوبست کردوں۔ تعمیل حکم میں انہوں نے خلیفہ کے سامنے جو فہرست پیش کی اس میں تھا فلاں ابن فلاں اور فلاں ابن فلاں اور سعید بن عامر سعید بن عامر؟ کون سعید بن عامر؟ عمر نے حیرت سے پوچھا۔ “ہمارے گورنر”

ارکان وفد نے جواب دیا۔ تمہارا گورنر؟کیا تمہارا گورنر فقیر ہے؟ عمر نے مزید حیرت سے پوچھا” جی ہاں امیر المومنین! خدا کی قسم کتنے ہی دن ایسے گذر جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں آگ نہیں جلتی” وفد نے مزید وضاحت کی۔ یہ سن کر عمر رو پڑے۔ وہ دیر تک روتے رہے
حتی کہ ان کی داڑھی آنسووں سے تر ہو گئی۔ پھر وہ اٹھے اور ایک ہزار دینار ایک تھیلی میں رکھ کر اسے ارکان وفد کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا

: “سعید سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیر المومنین نے یہ مال آپ کے لیے بھیجا ہے تاکہ آپ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں” وفد کے لوگ دیناروں کی وہ تھیلی لے کر سعید کی خدمت میں پہنچے اور اسے ان کے سامنے پیش کر دیا۔ انہوں نے اس تھیلی اور اس میں رکھے ہوئے دیناروں کو اپنے سے دور ہٹاتے ہوئے کہا: اِنا للہ وَاِنا الیہ راجعون جیسے ان کے اوپر کوئی بڑی مصیبت نازل ہو گئی ہو۔ آواز سن کر ان کی بیوی گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئیں اور بولیں: سعید کیا بات ہے؟ کیا امیر المومنین کا انتقال ہو گیا؟

نہیں، اس سے بھی بڑی افتاد آن پڑی ہے۔ سعید نے جواب دیا۔ اس سے بڑی افتاد کیا ہوسکتی ہے۔ بیوی نے پوچھا۔ “دنیا میرے گھر میں داخل ہو گئی ہے تاکہ میری آخرت کو تباہ کر دے”۔ سعید نے تشویش ناک لہجے میں جواب دیا۔ ” اس سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ بیوی نے ہمدردانہ مشورہ دیا۔(ابھی تک وہ دیناروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی) کیا تم اس معاملے میں میری مدد کرسکتی ہو؟ سعید نے پوچھا۔

ہاں کیوں نہیں۔ بیوی نے جواب دیا۔ پھر سعید نے تمام دیناروں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر انہیں غریب اور حاجت مند مسلمانوں میں تقسیم کروا دیا۔ اس بات کو ابھی کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ عمر بن خطاب شام کے دورے پر وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اس دورے میں جب آپ حمص پہنچے، (اس زمانے میں حمص کو “کوَیفہ” بھی کہا جاتا تھا اس لیے وہاں کے باشندے بھی اہل کوفہ کی طرح اپنے عمال اور حکام کی بکثرت شکایتیں کرنے میں مشہور تھے)

تو جب اہل حمص خلیفہ سے سلام و ملاقات کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خلیفہز نے ان سے دریافت کیا کہز تم نے اپنے اس نئے امیر کو کیسا پایا؟جواب میں انہوں نے امیر المومنین کے سامنے سعید بن عامر کی چار شکایتیں پیش کیں جن میں سے ہر ایک شکایت دوسری سے بڑی تھی۔ عمر فرماتے ہیں کہ ” میں نے ان کو اور سعید کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور اللہ تعالٰیٰ سے دعا کی کہ وہ سعید کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہ پہنچائے، کیونکہ میں ان کے متعلق بہت زیادہ خوش گمان تھا۔

جب شکایت کرنے والے اور ان کے امیر سعید بن عامر میرے پاس یکجا ہو گئے تو میں نے دریافت کیا کہ تم کو اپنے امیر سے کیا شکایت ہے؟ جب تک خوب دن نہیں چڑھ آتا یہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے، معترضین نے کہا۔ میں نے سعید سے دریافت کیا کہ سعید تم اس شکایت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟سعید تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے خدا کی قسم میں اس بات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کو ظاہر کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ میرے گھر میں کوئی خادمہ نہیں ہے۔ اس لیے ذرا سویر ے اٹھتا ہوں تو پہلے آٹا گوندھتا ہوں، پھر تھوڑی دیر انتظار کرتا ہوں تاکہ اس کا خمیر اٹھ جائے،

پھر روٹیاں پکاتا ہوں۔ اس کے بعد وضو کر کے لوگوں کی ضرورت کے لیے باہر نکلتا ہوں۔ میں نے اہل حمص سے پوچھا کہ تمہاری دوسری شکایت کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ ” یہ رات کے وقت کسی کا جواب نہیں دیتے” میں نے پوچھا کہ ” سعید اس شکایت کے متعلق تم کیا کہنا چاہتے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ ” خدا کی قسم میں اس بات کو بھی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا تھا، مین نے دن کے اوقات ان لوگوں کے لیے اور رات کے او قات اپنے رب کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں” میں نے معترضین سے کہا” اب تم اپنی تیسری شکایت بیان کرو” انہوں نے کہا کہ یہ مہینے میں ایک بار دن بھر گھر سے باہر نہیں نکلتے”

۔ میں نے دریافت کیا کہ سعید تم اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہو؟سعید نے کہا” امیر المومنین میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے اور جسم کے ان کپڑوں کے سوا میرے پاس اور کپڑا نہیں ہے، میں انکو مہینے میں صرف ایک بار دھوتا ہوں اور ان کے خشک ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور سوکھنے کے بعد دن کے آخری حصے میں انہیں پہن کر باہر آتا ہوں میں نے کہا کہ اب تم اپنی چوتھی شکایت بیا ن کرو:” انہوں نے کہا کہ ان کو رہ رہ کر غشی کے شدید دورے پڑتے ہیں اور یہ اپنے گردو پیش سے بے خبر ہوجاتے ہیں”

میں نے کہا ” سعید تمہارے پاس اس شکایت کا کیا جواب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں خبیب بن عدی کے قتل کے وقت موقع پر موجود تھا اور اس وقت میں مشرک تھا۔ میں نے قریش کو دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹتے جاتے اور ساتھ ہی یہ کہتے جاتے کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ آج تمہاری جگہ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے؟تو وہ جواب دیتے کہ خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں میں ایک پھانس بھی لگ جائے۔ خدا کی قسم جب مجھ کو وہ منظر یاد آتا ہے

اور ساتھ ہی یہ بھی یا د آتا ہے کہ میں نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہ کی تو مجھے اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالٰیٰ میری اس کوتاہی کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اوراسی وقت میرے اوپر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے سعید کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔ اس کے بعد عمر نے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ خدا کا شکر ہے

کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمات سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا : کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔ یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔

سعید نے کہا کہ ” ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں” اہلیہ نے کہا” ہاں یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے” پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا کہ ” انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجت مندوں میں تقسیم کردو” اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خود محتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں